• 2 years ago
ماضی کی معروف اور بلبلِ پاکستان کا اعزاز اپنے نام کرنے والی معروف گلوکارہ نیّرہ نور انتقال کر گئی ہیں۔ اُن کی عمر 71 برس تھی۔ اُن کی نماز جنازہ آج سہ پہر کراچی میں ادا کی جائے گی۔

اہل خانہ نے پاک ایشیا ویب چینل کو بتایا کہ نیّرہ نور کا ہفتہ کو مختصر علالت کے بعد انتقال ہوگیا تاہم ان کی بیماری کی نوعیت فوری طور پر واضح نہیں ہوسکی۔

1950 میں بھارتی ریاست آسام میں پیدا ہونے والی نیّرہ نور 50 کی دہائی کے آخر میں اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آئی تھیں۔

سنہ 2005 میں انھیں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

برسوں پہلے انھوں نے گلوکاری چھوڑ دی تھی لیکن ان کے گائے گیت، غزلیں ہر دور میں مقبول و معروف رہے۔

ان کے معروف گانوں ملی نغموں اور غزلوں میں، تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، روٹھے ہو تم تم کو کیسے مناؤں پیا، آج بازار میں پا بجولاں چلو، کہاں ہو تم چلے آؤ، اے عشق ہمیں برباد نہ کر اور وطن کی مٹی گواہ رہنا سمیت دیگر بہت سے شامل ہیں۔

نیّرہ کا کرئیر 70 کی دہائی سے شروع ہوا اور سنہ 2022 تک جاری رہا، اس دوران انھوں نے نغمے، غزلیں اور گیت گانے کے علاوہ فلموں اور ڈراموں کے لیے پلے بیک سنگنگ بھی کی۔

انہوں نے اپنے شاندار کیریئر کے دوران کئی ایوارڈز اور تعریفیں سمیٹیں، ساتھ ہی صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی بھی وصول کیا۔

ان کی خوبصورت اور مترنم آواز کی وجہ سے انہیں بلبل پاکستان کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔

ان کے پسماندگان میں شوہر شہریار زیدی اور دو بیٹے علی اور جعفر شامل ہیں۔

جیو نیوز سے وابستہ نیوز کاسٹر اور ان کے بھتیجے رضا زیدی نے ان کے انتقال کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ 'میں بہت افسردہ دل کے ساتھ اپنی پیاری تائی نیّرہ نور کی وفات کا اعلان کررہا ہوں'۔

نیّرہ نور کی وفات پر پاکستانی سوشل میڈیا پر اداسی کا سماں ہے۔ بہت سے لوگ ان کی وفات کی خبر پر رنج کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کی مشہور غزلوں اور گانوں کو شیئر بھی کر رہے ہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے لکھا ’نامور گلوکارہ نیرہ نور کا انتقال موسیقی کی دنیا کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ وہ اپنی آواز میں ترنم اور سوز کی وجہ سے خاص پہچان رکھتی تھیں۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’غزل ہو یا گیت جو بھی انھوں نے گایا کمال گایا۔ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پُر نہیں ہوگا۔ خدا مرحومہ کو جنت میں جگہ دے۔‘

سینئیر صحافی اظہر عباس نے لکھا بہت سے لوگ فیض کی انقلابی شاعری کو نیّرہ نور کی گائیکی سے سمجھ پائے۔

مونا فاروق نے لکھا `جو غزلیں اور نظمیں نیرہ نور نے گائیں وہ پھر انہی کی ہوگئیں، شاعروں کے نام پیچھے رہ گئے۔ایک سنہری عہد تھا جو تمام ہوا ۔‘

Category

🗞
News

Recommended