شہادتِ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ: ایک تاریخی جائزہ
پس منظر:
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ (577–656 عیسوی) رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابی، تیسرے خلیفۂ راشد، اور "ذوالنورین" (دو نوروں والے) کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ نے 644ء سے 656ء تک خلافت کی ذمہ داری سنبھالی اور اسلامی سلطنت کو وسعت دی۔ تاہم، آپ کے دور کے آخری سالوں میں سیاسی کشمکش اور بغاوت کے نتیجے میں آپ کو شہید کر دیا گیا۔
واقعۂ شہادت کے اسباب:
باغی گروہوں کا ظہور:
مصر، کوفہ اور بصرہ سے کچھ باغی گروہوں نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کر لیا۔
ان کا مطالبہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلافت سے دستبردار ہو جائیں یا بعض گورنروں کو معزول کریں۔
حضرت عثمان کا صبر و تحمل:
آپ نے صحابہ کرام کی تجویز کے باوجود باغیوں کے خلاف سختی نہیں کی، بلکہ گفت و شنید اور صبر کا راستہ اپنایا۔
آپ نے فرمایا: "میں ایک خونریزی کو روکنے کے لیے اپنی جان دے دوں گا۔"
مدینہ کا محاصرہ:
باغیوں نے آپ کے گھر کو گھیر لیا اور پانی بند کر دیا۔
حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور دیگر اکابر صحابہ نے باغیوں کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن وہ نہ مانے۔
واقعۂ شہادت (18 ذی الحجہ 35 ہجری / 17 جون 656 عیسوی):
باغیوں نے زبردستی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں گھس کر آپ پر حملہ کیا۔
اس وقت آپ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔
محمد بن ابی بکر (بعض روایات کے مطابق) اور دیگر باغیوں نے آپ کو شہید کر دیا۔
آپ کی شہادت کے وقت آپ کی بیوی حضرت نائلہ رضی اللہ عنہا نے بھی زخمی ہونے کی کوشش کی۔
آپ کا خون قرآن کی اس آیت پر گر گیا:
"فَسَیَکْفِیکَهُمُ اللّٰهُ وَهُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ" (البقرہ 137)
(اللہ تمہیں ان کے شر سے کافی ہو گا، وہ سننے والا جاننے والا ہے۔)
شہادت کے بعد:
باغیوں نے تین دن تک آپ کی تجہیز و تکفین نہیں ہونے دی۔
بالآخر حضرت جعفر بن ابی طالب کے بیٹے اور چند صحابہ نے رات کے اندھیرے میں آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا۔
یہ پہلا المناک واقعہ تھا جس نے امتِ مسلمہ میں پہلی بڑی خانہ جنگی (فتنۂ مابین الصحابہ) کی بنیاد ڈالی۔
تاریخی سبق اور اثرات:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت نے امت کو یہ سبق دیا کہ اختلافات کو تشدد سے حل کرنے کے بجائے حکمت اور رواداری سے نمٹنا چاہیے۔
آپ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور شروع ہوا، جس میں جنگِ جمل اور صفین جیسے واقعات رونما ہوئے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی عظمت:
قرآن پاک کی جمع و تدوین میں آپ کا اہم کردار۔
مسجد نبوی کی توسیع۔
اسلامی بحری بیڑے کی مضبوطی۔
آپ کے دور میں ایران، شمالی افریقہ اور قبرص فتح ہوئے
پس منظر:
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ (577–656 عیسوی) رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابی، تیسرے خلیفۂ راشد، اور "ذوالنورین" (دو نوروں والے) کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ نے 644ء سے 656ء تک خلافت کی ذمہ داری سنبھالی اور اسلامی سلطنت کو وسعت دی۔ تاہم، آپ کے دور کے آخری سالوں میں سیاسی کشمکش اور بغاوت کے نتیجے میں آپ کو شہید کر دیا گیا۔
واقعۂ شہادت کے اسباب:
باغی گروہوں کا ظہور:
مصر، کوفہ اور بصرہ سے کچھ باغی گروہوں نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کر لیا۔
ان کا مطالبہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلافت سے دستبردار ہو جائیں یا بعض گورنروں کو معزول کریں۔
حضرت عثمان کا صبر و تحمل:
آپ نے صحابہ کرام کی تجویز کے باوجود باغیوں کے خلاف سختی نہیں کی، بلکہ گفت و شنید اور صبر کا راستہ اپنایا۔
آپ نے فرمایا: "میں ایک خونریزی کو روکنے کے لیے اپنی جان دے دوں گا۔"
مدینہ کا محاصرہ:
باغیوں نے آپ کے گھر کو گھیر لیا اور پانی بند کر دیا۔
حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور دیگر اکابر صحابہ نے باغیوں کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن وہ نہ مانے۔
واقعۂ شہادت (18 ذی الحجہ 35 ہجری / 17 جون 656 عیسوی):
باغیوں نے زبردستی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں گھس کر آپ پر حملہ کیا۔
اس وقت آپ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔
محمد بن ابی بکر (بعض روایات کے مطابق) اور دیگر باغیوں نے آپ کو شہید کر دیا۔
آپ کی شہادت کے وقت آپ کی بیوی حضرت نائلہ رضی اللہ عنہا نے بھی زخمی ہونے کی کوشش کی۔
آپ کا خون قرآن کی اس آیت پر گر گیا:
"فَسَیَکْفِیکَهُمُ اللّٰهُ وَهُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ" (البقرہ 137)
(اللہ تمہیں ان کے شر سے کافی ہو گا، وہ سننے والا جاننے والا ہے۔)
شہادت کے بعد:
باغیوں نے تین دن تک آپ کی تجہیز و تکفین نہیں ہونے دی۔
بالآخر حضرت جعفر بن ابی طالب کے بیٹے اور چند صحابہ نے رات کے اندھیرے میں آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا۔
یہ پہلا المناک واقعہ تھا جس نے امتِ مسلمہ میں پہلی بڑی خانہ جنگی (فتنۂ مابین الصحابہ) کی بنیاد ڈالی۔
تاریخی سبق اور اثرات:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت نے امت کو یہ سبق دیا کہ اختلافات کو تشدد سے حل کرنے کے بجائے حکمت اور رواداری سے نمٹنا چاہیے۔
آپ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور شروع ہوا، جس میں جنگِ جمل اور صفین جیسے واقعات رونما ہوئے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی عظمت:
قرآن پاک کی جمع و تدوین میں آپ کا اہم کردار۔
مسجد نبوی کی توسیع۔
اسلامی بحری بیڑے کی مضبوطی۔
آپ کے دور میں ایران، شمالی افریقہ اور قبرص فتح ہوئے
Category
📚
Learning