تیرہویں اموی خلیفہ: ہشام بن عبدالملک اور اس کا دورِ حکومت
تعارف
ہشام بن عبدالملک بن مروان اموی خلافت کا تیرہواں خلیفہ تھا، جس نے 105 ہجری (724 عیسوی) سے 125 ہجری (743 عیسوی) تک حکمرانی کی۔ اس کا دور اموی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتا ہے، کیونکہ اس نے خلافت کو وسعت دی اور انتظامی اصلاحات نافذ کیں۔ تاہم، اس کے عہد میں کئی چیلنجز نے بھی جنم لیا، جو بعد میں اموی سلطنت کے زوال کا سبب بنے۔
خاندانی پس منظر
ہشام، خلیفہ عبدالملک بن مروان کا بیٹا اور ولید بن عبدالملک، سلیمان بن عبدالملک، یزید بن عبدالملک اور عمر بن عبدالعزیز کا بھائی تھا۔ وہ بنو امیہ کے مروانی خاندان سے تعلق رکھتا تھا، جو اموی خلافت کی سب سے طاقتور شاخ تھی۔
تخت نشینی
ہشام نے اپنے بھائی یزید بن عبدالملک کی وفات کے بعد خلافت سنبھالی۔ اس وقت تک اموی سلطنت اپنے عروج پر تھی، لیکن اندرونی اور بیرونی چیلنجز بڑھ رہے تھے۔
دورِ حکومت کی نمایاں خصوصیات
1. انتظامی اور مالی اصلاحات
ہشام نے اپنے دور میں کئی اصلاحات نافذ کیں:
مالی نظام کی مضبوطی: اس نے محصولات اور ٹیکسز کا نظام بہتر بنایا تاکہ خزانہ مستحکم رہے۔
زراعت کی ترقی: نہری نظام کو بہتر کیا گیا اور کاشتکاروں کو سہولیات فراہم کی گئیں۔
ڈاک اور مواصلاتی نظام: سلطنت کے مختلف حصوں میں رابطے کو تیز کرنے کے لیے ڈاک کے نظام کو منظم کیا گیا۔
2. فتوحات اور جنگی مہمات
ہشام کے دور میں مسلم افواج نے کئی محاذوں پر جنگ کی:
بازنطینی جنگ: مسلمانوں نے بازنطینی سلطنت کے خلاف متعدد مہمات چلائیں، جن میں قسطنطنیہ کا محاصرہ (122 ہجری) بھی شامل تھا، لیکن یہ کامیاب نہ ہو سکا۔
ترک اور قفقاز کی جنگیں: وسط ایشیا میں ترک قبائل کے خلاف لڑائیاں ہوئیں، جن میں مسلمانوں کو کچھ علاقے فتح ہوئے۔
فرانس پر حملہ: سپین سے فرانس کی طرف پیش قدمی کی گئی، لیکن ٹورز کی جنگ (114 ہجری/732 عیسوی) میں مسلمانوں کو شکست ہوئی، جس نے یورپ میں اسلامی توسیع کو روک دیا۔
3. داخلی چیلنجز اور بغاوتیں
خارجی اور شیعہ بغاوتیں: ہشام کے دور میں خارجی اور شیعہ گروہوں نے متعدد بغاوتیں کیں، جن میں زید بن علی کی بغاوت (122 ہجری) نمایاں ہے۔
بربر بغاوت: شمالی افریقہ میں بربر قبیلوں نے اموی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا، جسے کچل دیا گیا۔
4. علمی و ثقافتی ترقی
تعلیمی اداروں کی توسیع: ہشام کے دور میں علم و ادب کو فروغ ملا، اور کئی مدارس قائم ہوئے۔
عربی زبان کی ترویج: سرکاری دفاتر میں عربی کو لازمی قرار دیا گیا۔
وفات اور جانشینی
ہشام بن عبدالملک کی وفات 125 ہجری (743 عیسوی) میں ہوئی۔ اس کے بعد اس کا بھتیجا ولید بن یزید بن عبدالملک تخت نشین ہوا، جو ایک متنازع حکمران ثابت ہوا۔
تاریخی تنقید اور دور کا اثر
ہشام بن عبدالملک کو ایک قابل منتظم اور دوراندیش حکمران سمجھا جاتا ہے، جس نے سلطنت کو مستحکم کیا۔ تاہم، اس کے دور میں بڑھتی ہوئی بغاوتوں اور فوجی اخراجات نے اموی خلافت کو کمزور کرنا شروع کر دیا۔ مورخین کے نزدیک، اگرچہ ہشام کا دور اموی عروج کا آخری دور تھا، لیکن اس کے بعد آنے والے کمزور حکمرانوں نے سلطنت کو تیزی سے زوال کی طرف دھکیل دیا۔
نتیجہ
ہشام بن عبدالملک کا دور اموی خلافت کا ایک اہم باب ہے، جس میں انتظامی اصلاحات، فتوحات اور ثقافتی ترقی نمایاں ہیں۔ تاہم، اندرونی بغاوتوں اور بیرونی دباؤ نے اس کی حکومت کو چیلنجز سے دوچار کر دیا، جو بعد میں اموی سلطنت کے انہدام کا سبب بنا۔
تعارف
ہشام بن عبدالملک بن مروان اموی خلافت کا تیرہواں خلیفہ تھا، جس نے 105 ہجری (724 عیسوی) سے 125 ہجری (743 عیسوی) تک حکمرانی کی۔ اس کا دور اموی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتا ہے، کیونکہ اس نے خلافت کو وسعت دی اور انتظامی اصلاحات نافذ کیں۔ تاہم، اس کے عہد میں کئی چیلنجز نے بھی جنم لیا، جو بعد میں اموی سلطنت کے زوال کا سبب بنے۔
خاندانی پس منظر
ہشام، خلیفہ عبدالملک بن مروان کا بیٹا اور ولید بن عبدالملک، سلیمان بن عبدالملک، یزید بن عبدالملک اور عمر بن عبدالعزیز کا بھائی تھا۔ وہ بنو امیہ کے مروانی خاندان سے تعلق رکھتا تھا، جو اموی خلافت کی سب سے طاقتور شاخ تھی۔
تخت نشینی
ہشام نے اپنے بھائی یزید بن عبدالملک کی وفات کے بعد خلافت سنبھالی۔ اس وقت تک اموی سلطنت اپنے عروج پر تھی، لیکن اندرونی اور بیرونی چیلنجز بڑھ رہے تھے۔
دورِ حکومت کی نمایاں خصوصیات
1. انتظامی اور مالی اصلاحات
ہشام نے اپنے دور میں کئی اصلاحات نافذ کیں:
مالی نظام کی مضبوطی: اس نے محصولات اور ٹیکسز کا نظام بہتر بنایا تاکہ خزانہ مستحکم رہے۔
زراعت کی ترقی: نہری نظام کو بہتر کیا گیا اور کاشتکاروں کو سہولیات فراہم کی گئیں۔
ڈاک اور مواصلاتی نظام: سلطنت کے مختلف حصوں میں رابطے کو تیز کرنے کے لیے ڈاک کے نظام کو منظم کیا گیا۔
2. فتوحات اور جنگی مہمات
ہشام کے دور میں مسلم افواج نے کئی محاذوں پر جنگ کی:
بازنطینی جنگ: مسلمانوں نے بازنطینی سلطنت کے خلاف متعدد مہمات چلائیں، جن میں قسطنطنیہ کا محاصرہ (122 ہجری) بھی شامل تھا، لیکن یہ کامیاب نہ ہو سکا۔
ترک اور قفقاز کی جنگیں: وسط ایشیا میں ترک قبائل کے خلاف لڑائیاں ہوئیں، جن میں مسلمانوں کو کچھ علاقے فتح ہوئے۔
فرانس پر حملہ: سپین سے فرانس کی طرف پیش قدمی کی گئی، لیکن ٹورز کی جنگ (114 ہجری/732 عیسوی) میں مسلمانوں کو شکست ہوئی، جس نے یورپ میں اسلامی توسیع کو روک دیا۔
3. داخلی چیلنجز اور بغاوتیں
خارجی اور شیعہ بغاوتیں: ہشام کے دور میں خارجی اور شیعہ گروہوں نے متعدد بغاوتیں کیں، جن میں زید بن علی کی بغاوت (122 ہجری) نمایاں ہے۔
بربر بغاوت: شمالی افریقہ میں بربر قبیلوں نے اموی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا، جسے کچل دیا گیا۔
4. علمی و ثقافتی ترقی
تعلیمی اداروں کی توسیع: ہشام کے دور میں علم و ادب کو فروغ ملا، اور کئی مدارس قائم ہوئے۔
عربی زبان کی ترویج: سرکاری دفاتر میں عربی کو لازمی قرار دیا گیا۔
وفات اور جانشینی
ہشام بن عبدالملک کی وفات 125 ہجری (743 عیسوی) میں ہوئی۔ اس کے بعد اس کا بھتیجا ولید بن یزید بن عبدالملک تخت نشین ہوا، جو ایک متنازع حکمران ثابت ہوا۔
تاریخی تنقید اور دور کا اثر
ہشام بن عبدالملک کو ایک قابل منتظم اور دوراندیش حکمران سمجھا جاتا ہے، جس نے سلطنت کو مستحکم کیا۔ تاہم، اس کے دور میں بڑھتی ہوئی بغاوتوں اور فوجی اخراجات نے اموی خلافت کو کمزور کرنا شروع کر دیا۔ مورخین کے نزدیک، اگرچہ ہشام کا دور اموی عروج کا آخری دور تھا، لیکن اس کے بعد آنے والے کمزور حکمرانوں نے سلطنت کو تیزی سے زوال کی طرف دھکیل دیا۔
نتیجہ
ہشام بن عبدالملک کا دور اموی خلافت کا ایک اہم باب ہے، جس میں انتظامی اصلاحات، فتوحات اور ثقافتی ترقی نمایاں ہیں۔ تاہم، اندرونی بغاوتوں اور بیرونی دباؤ نے اس کی حکومت کو چیلنجز سے دوچار کر دیا، جو بعد میں اموی سلطنت کے انہدام کا سبب بنا۔
Category
📚
Learning