صاف چھپتے بھی نہ تھے - تنویر نقوی

  • 9 years ago
صاف چھپتے بھی نہ تھے
سامنے آتے بھی نہ تھے
کیسا پردہ تھا کہ پردے کو گراتے بھی نہ تھے
ہائے وہ شرمگیں آنکھیں وہ حیا کی سرخی
وہ ہر اندازمیں ہر ناز میں معصومی سی
ہائے وہ جلوے کہ نظروں میں سماتے بھی نہ تھے
صاف چھپتے بھی نہ تھے
حسن ایسا کہ جو افسانوں کا عنوان بنے
اور قد سینکڑوں فتنوں کا جوسامان بنے
اتنے سادہ تھے کہ فتنوں کو جگاتے بھی نہ تھے
صاف چھپتے بھی نہ تھے
حسن اور عشق میں یوں پہلی ملاقات ہوئی
بات کوئی نہ ہوئی پھر بھی ہر اک بات ہوئی
خود کھنچے آتے تھے اور ہم بلاتے بھی نہ تھے
صاف چھپتے بھی نہ تھے

Recommended