Sniper series episode 21 a story full of thrill and suspense operation in india
#sniper
#thrill
#danger
#sniper
#thrill
#danger
Category
😹
FunTranscript
00:00موسیقی
00:30موسیقی
01:00موسیقی
01:30موسیقی
02:00موسیقی
02:02موسیقی
02:30آپ کو بزریا چٹھی اطلاع کر دی جائے گی
02:32اور یاد رکھئے لکھائی کی مشک کے لیے کھلی فضاء خاص کر پہاڑی علاقہ بہتر رہتا ہے
02:37آخر میں انگریزی محاورہ درج تھا
02:39پریکٹس میکس امین پرفیکٹ
02:41ایک دفعہ تو وہ تحریر پڑھ کر میں چکرا گیا تھا کہ اس بیمانی تحریر کا مقصد کیا ہے
02:46دوبارہ پڑھنے پر بیڈ کے نیچے خدائی والے فکرے نے مجھے تحریر کی دعوت دی
02:51اس کوارٹر میں ایک ہی بیڈ پڑا ہوا تھا
02:53دوسرے کمرے میں دو چار پائیاں رکھی ہوئی تھی
02:55اور اتفاق سے میں بیڈ پر ہی سو رہا تھا
02:58میں نے بیڈ ہٹا کر اس کے نیچے بچھی ہوئی پلاسٹک کی چٹائی بھی ہٹا دی
03:01کمرے کا فرش پختہ اینٹوں کا بنا ہوا تھا
03:04لیکن بیڈ کے نیچے ڈیڑھ فٹ چوڑی اور چار فٹ لمبی جگہ کی اینٹیں واضح طور پر ایسی دکھائی دی رہی تھی
03:11کہ کسی نے اکھیڑ کر دوبارہ لگائی ہوں
03:13میں جلدی جلدی وہ اینٹیں ہٹانے لگا
03:15دو تین اینٹیں ہٹاتے ہی مجھے اس کے نیچے مضبوط پلاسٹک کا بکس نظر آنے لگا
03:19جلدی میں نے اکھڑی ہوئی تمام اینٹیں اٹھا کر ایک جانب رکھتی تھی
03:23نیچے موجود پلاسٹک بکس نکال کر میں نے بیتابی سے کھولا
03:26اس میں ایک سنائپر رائیفل اور سنائپرز کے کام آنے والا دوسرا سامان بھرا ہوا تھا
03:31لیکن وہاں روس کی جات کردہ ڈریگن آف رائیفل کی بجائے
03:33اسرائیلی ساخت کی گیلیل رائیفل پڑی ہوئی تھی
03:36خوش قسمتی سے گیلیل کو بھی زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت استعمال کر چکا تھا میں
03:41کارگر رینج دونوں رائیفلوں کا ہزار میٹر ہے
03:43ڈریگن آف سنائپر رائیفل کی میگزین میں دس گولیاں پڑتی ہیں
03:46جبکہ گیلیل کی میگزین میں بیس گولیوں کی گنجائش ہے
03:50البتہ گیلیل ڈریگن آف کے مقابلے میں وزن میں تھوڑی زیادہ ہے
03:54لیکن کارکردگی میں اس سے بہتر ہے
03:55وزن میں زیادہ کا مطلب کوئی یہ نہ لے
03:58کہ گیلیل کوئی بہت ہی وزنی رائیفل ہے
04:00گیلیل کا مجموعی وزن ساڑھے چھے کلو ہے
04:03یقیناً یہ کوئی اتنا وزن نہیں ہے
04:05کہ کسی سنائپر کو ساتھ پھرانے میں کوئی تکلیف محسوس ہو
04:08امریکہ میں سنائپر کورس کے دوران
04:10مجھے گیلیل سے دو تین مرتبہ فائر کرنے کا موقع ملا تھا
04:13البتہ ڈریگن آف رائیفل سے میں فائر کی کافی مشک کر چکا تھا
04:17اور پاکستان سے آتے وقت مجھے یہی بتایا گیا تھا
04:20کہ انڈیا میں مجھے ڈریگن آف رائیفل ملے گی
04:22اس کے باوجود ڈریگن آف کی بجائے
04:24گیلیل کو پا کر مجھے خوشی محسوس ہوئی تھی
04:26یقیناً تحریر میں موجود آخری فقرہ
04:29پریکٹس میکس امین پرفیکٹ کا مطلب یہی تھا
04:40میں مجھے یہ بتایا گیا تھا
04:41کہ میں اگلے حکم تک گیلیل رائیفل کے ساتھ مشک کروں
04:45اسی بقس میں گیلیل کا ایمونیشن بھی پڑا ہوا تھا
04:48دو سو گولیوں کا مطلب یہ تھا
04:49کہ میں ایک سو نینانوے گولیاں مشک کے لیے استعمال کر سکتا تھا
04:53حدف کے لیے مجھے یوں بھی ایک ہی گولی درکار تھی
04:55رائیفل کے پرزوں کے ساتھ موجود آلہ کوالٹی کا سائلنسر
04:59یقیناً مجھے چھپ کر مشک کرنے میں مدد دینے والا تھا
05:02بلکہ سائلنسر کے علاوہ تو مشک کرنا ناممکن ہو جاتا
05:05میں نے ایک بار رائیفل کے پرزوں کو مکمل جوڑ کر اتمنان کر لیا تھا
05:09کہ رائیفل صحیح کام کر رہی ہے
05:11اس کے بعد دوبارہ پرزوں کو کھول کر ایک سفری بیگ میں ڈال لیا
05:14سب سے پہلے میں نے قریبی ہوتل پر جا کر دن کا کھانا کھایا
05:17اور پھر کورٹر پر واپس آ کر سفری بیگ کنتھوں میں ڈال کر
05:21بائیک کو کورٹر سے باہر لے آیا
05:23چیک کرنے پر بائیک کی ٹینک کی پیٹرول سے بھری نظر آئی
05:26بائیک کی حالت بتا رہی تھی کہ وہ میری آمد سے ایک دو دن پہلے ہی خریدی گئی ہے
05:30درمیانی رفتار سے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے میں شہر کے مضافات میں موجود پہاڑی سلسلے کی جانب روانہ ہو گیا
05:37گھنٹے بھر بعد ہی میں ایسی جگہ پہنچ گیا تھا
05:40جہاں میں بغیر کسی مداخلت کے مشک کر سکتا تھا
05:43سائلنسر کی موجودگی نے یوں بھی فائر سے پیدا ہونے والی آواز سے بے فکر کر دیا تھا
05:47دو اڑھائی گھنٹے کے اندر میں نے فائر کرتے ہوئے گیلل کی ٹیلیسکوپ سائٹ کو اچھی طرح جانچ کر اپنے مطابق ڈھال لیا تھا
05:55اس دوران میں نے پچاس راؤنڈ فائر کیے تھے
05:57آخری دس راؤنڈ میں نے ہزار میٹر کے فاصلے پر فائر کیے تھے
06:00نشانے کی درستگی سے مطمئن ہو کر میں نے رائفل کو کھول کر سفری بیگ میں ڈالا اور واپسی کی راہ لی
06:06اپنے کوارٹر میں پہنچ کر میں نے رائفل کی بیرل اور فائر سے گندے ہونے والے پرزوں کو اچھی طرح صاف کیا
06:12گرم ابلتا پانی بھی بیرل میں ڈالا تاکہ صفائی میں کوئی کمی نہ رہ جائے
06:16یوں بھی جس ہتھیار کو فائر کے بعد صاف نہ کیا جائے وہ خراب ہو جاتا ہے
06:20اور ایک سنائپر تو اپنے ہتھیار کی صفائی کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہوتا ہے
06:24گیلل کو صاف کر کے میں نے ہلکا سا تیل لگا کر واپس بیگ میں ڈالا
06:28اب مجھے مزید مشک کی ضرورت نہیں تھی
06:30اگلے چار دن تک عادتہ ورما کی جانب سے پھر خاموشی چھا گئی
06:34پانچوے دن میں اپنے مخصوص وقت پر دوپہر کے کھانے کے لیے کمرے سے نکلا
06:37بیرونی دروازے کی کنڈی کھولنے سے پہلے میری نظر سفید رنگ کے لفافے پر پڑی
06:42جو یقینا کسی نے دروازے کے نیچے سے اندر دھکیلا تھا
06:45لفافہ اٹھا کر میں واپس پلٹا
06:47کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے بے سبری سے لفافہ کھولا
06:50وہاں فقط چند الفاظ لکھے ہوئے تھے
06:52ہوتل اور کمرہ نمبر کے بارے میں آپ جانتے ہیں
06:55اتنا لکھ کر آنے والے کل کی تاریخ اور دن کے تین بجے کا وقت درج تھا
06:59اور وہاں پر میں صرف ایک ہوتل سے واقف تھا
07:02جہاں میں نے اس شہر میں وارد ہونے کے ساتھ پہلی رات گزاری تھی
07:05گویا مجھے ہنومان جی ہوتل کمرہ نمبر ستائیس کا بتایا گیا تھا
07:09یقیناً عدتیہ ورمہ کا کوڈ ورڈز میں
07:11مجھ تک پیغام پہنچانے کا مقصد یہی تھا
07:14کہ اگر اس کے لکھی ہوئی چٹھی کسی اور کے ہاتھ لگ بھی جاتی
07:18تو وہ اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا
07:20بہرحال یہ جاسوسوں کا اپنا طریقہ کار تھا
07:23اور میں نے گو جاسوس بننے کی کوئی تربیت تو حاصل نہیں کی تھی
07:26اس کے باوجود اس بارے میں کافی کچھ جانتا تھا
07:29کہ کمانڈوز کی زیر نگرانی میں بھی چند کورس کر چکا تھا
07:32اسی طرح امریکہ میں بھی ہمیں دشمن سنائپرز کے طریقہ کار
07:36اور ان کی چالوں وغیرہ کے بارے میں کافی تفصیل سے بتایا گیا تھا
07:39اسی طرح یہ بھی سکھایا گیا تھا
07:41کہ ایک سنائپر دشمن ملک میں جا کر
07:43خود کو کس طرح دشمن کی گرفت میں آنے سے بجا سکتا ہے
07:46یہ اسبا کسی بھی طرح جاسوسی پڑھائی سے کم نہیں تھے
07:49یہی وجہ تھی کہ دونوں مرتبہ عادتیہ ورما کے خط پڑھتے ہوئے
07:53مجھے مطلب سمجھنے میں زیادہ دقت کا سامنہ نہیں ہوا
07:56اگلے دن میں مطلوبہ وقت سے گھنٹہ بھر پہلے
07:59ہنومان جی ہوتل میں پہنچ گیا تھا
08:01تین بجے تک کا وقت میں نے چائے پیتے
08:03اور ہال کی دیوار پر ٹنگی بڑی
08:05لسی ڈی پر چلتی فلم دیکھتے گزارا
08:07تین بجنے میں پانچ منٹ رہتے تھے
08:09جب میں سیڑھیوں کے ذریعے ہوتل کی دوسری منزل پر پہنچا
08:11کمرہ نمبر ستائیس میں ایک رات گزار چکا تھا
08:14اور مجھے یقین تھا کہ رکے میں
08:16اسی کمرے کی بابت پتایا گیا تھا
08:17اس کے باوجود دروازے پر دستک دیتے وقت
08:20میرے دل میں ہلکا سا دھڑکا موجود تھا
08:22دستک کے جواب میں مجھے فوراں جواب
08:24موصول ہوا دروازہ کھلا ہوا ہے آ جاؤ
08:26اندر گھستے ہی میری نظر سوفے پر بیٹھے ہوئے
08:28ایک قبول صورت جوان پر پڑی
08:30اس کے عمر کا اندازہ میں نے
08:3135-36 سال کے قریب لگایا تھا
08:34اس کے سامنے پڑی ٹیبل پر دیسی شراب کی
08:36ایک بوتل اور دو گلاس رکھے ہوئے تھے
08:38ایک گلاس آتھا بھرا ہوا
08:40جبکہ دوسرا خالی تھا
08:41خوش آمدید
08:42اس نے بیٹھے بیٹھے میری جانے
08:43مصافے کے لیے ہاتھ بڑھایا
08:45اسے ہاتھ ملا کر میں نے بھی
08:46اس کے سامنے کرسی سنبھال لی
08:48وہ دوسرے گلاس میں بھی شراب انڈیلنے لگا
08:50میں نے کہا میں یہ نہیں پیتا
08:52وہ بولا میں بھی نہیں پیتا
08:53ہلکے سے مسکراتے ہوئے
08:54اس نے آدھے سے زیادہ گلاس بھر کر
08:56میرے سامنے رکھ دیا
08:57میرا نام دھیرج ودھاوہ ہے
08:59میں نے کہا کرن مہتا
09:00یقینا اس بات سے ہم دونوں واقف تھے
09:02کہ ہم دونوں کے بتائے گئے نام فرضی تھی
09:04وہ بولا پرسوں سپہر کے چار بجے
09:07عوامی پارک میں رنجیت چوپڑا کا جلسہ ہے
09:09انتخابات میں پانچے ماہ پڑے ہیں
09:11لیکن اس نے اپنی انتخابی مہم شروع کر دی ہے
09:14حکومت کی طرف سے اسے کافی سپورٹ کیا جا رہا ہے
09:16اس کی حفاظت کا بھی خاطرخواہ انتظام کیا گیا ہے
09:19بولٹ پروف گاڑی اسے ملی ہوئی ہے
09:20چار پانچ محافظ ہر وقت اس کے ساتھ ہوتے ہیں
09:23اس کا مکان بھی پولیس کے ساتھ
09:25خفیہ ایجنسی کے بندوں کے نرغے میں رہتا ہے
09:27اور ایسا پاکستانی سرکار کی طرف سے
09:29اس کے مطالبے کے بعد کیا گیا ہے
09:31بلکہ سچ کہوں تو اس پر ہونے والے
09:33ایک ناکام حملے کے بعد
09:34اس کی حفاظت کو اتنی زیادہ احمد دی گئی ہے
09:37یہ بات شاید تمہارے لیے حیرانی کا باعث بنے
09:40کہ اس پر حملہ نہ تو کسی پاکستانی جاسوس نے کیا
09:42اور نہ یہ کام پاکستان سے آئے ہوئے
09:45کسی سنائپر یا کمانڈوں نے کیا
09:47میں اس پر حملہ ہونے کی بات سے لاعلم تھا
09:49لیکن اس کے ساتھ جو بات دھیرج کر رہا تھا
09:52وہ اور بھی حیران کرنے والی تھی
09:53میں سوال پوچھے بغیر نہ رہ سکا
09:55پھر حملہ آور کون تھا
09:57وہ بولا یہ کام اس نے خود کروایا ہے
09:59اور اس وجہ سے اس کی حفاظت کو
10:01مزید بہتر بنا دیا گیا ہے
10:02ہم میں نے گہرا سانس لے کر کہا
10:04وہ بولا بہرحال اب انتخاب میں
10:06کامجابی کے بعد تو اس کی پانچوں گھی
10:08اور سرکڑائی میں ہوگا
10:10یوں بھی ان انتخابات میں
10:11اس کی کامجابی 99 فیصد یقینی ہے
10:14اس کے ساتھ یہ بات بھی آپ کے ذہن میں رہے
10:16کہ اگر پرسوں کا حملہ ناکام ہو گیا
10:18تو اس کے بعد اس کی حفاظت کو
10:21مزید بہتر بنا دیا جائے گا
10:22بلکہ وہ خود بھی محتاط ہو کر
10:24قلبند ہو جائے گا
10:25میں نے پوچھا منصوبہ کیا ہے
10:27وہ بولا منصوبہ بنانا آپ کا کام ہے
10:29تفصیلات پوچھ سکتے ہیں
10:30کوئی چیز چاہیے تو بتا سکتے ہیں
10:32میں نے کہا عوامی پارک کا نقشہ چاہیے
10:34اس نے کوٹ کی اندرونی جیب سے
10:36ایک تہہ کیا ہوا کاغذ نکال کر
10:38میری طرف بڑھا دیا
10:39یہ لوگ
10:39میں نے پوچھا پارک کے اطراف میں
10:41کوئی ایسی عمارت جہاں سے
10:42سٹیج نظر آسکے
10:43وہ بولا نقشے میں پارک
10:45اور اس کے دائیں بائیں
10:46کہ سارے علاقے کی تفصیلات
10:47نمبر ون نے خود باریک بینی سے درج کر دی ہیں
10:50میرے مو سے نادانستگی سے نکلا
10:52نمبر ون
10:52اس نے مو بنا کر کہا
10:54یہ جاننا آپ کے لئے ضروری نہیں
10:55میں نے جلدی سے کہا
10:57سوری
10:57وہ خوشدلی سے ہسا کوئی بات نہیں
10:59ویسے آپ اسے جانتے ہیں
11:00اس کے کہنے کے مطابق
11:02تو عدتیہ ورما ہی نمبر ون تھا
11:03کیونکہ میں اس کے علاوہ
11:05وہاں کسی سے واقف نہیں تھا
11:06میں نے پوچھا
11:07راسترم پر کوئی بولٹ پروف شیشہ
11:09تو نہیں لگا ہوتا
11:09اس نے نفی میں سر ہلایا نہیں
11:11میں نے اس کا دیا ہوا نقشہ
11:12کھول کر میز پر رکھا
11:14اور جائزہ لینے لگا
11:15وہ نقشہ بڑی ارک ریزی
11:17اور مہارت سے بنایا گیا تھا
11:18میں دل ہی دل میں
11:19نقشہ بنانے والے کی
11:20قابلیت کو سرہنے لگا
11:22ہر وہ سوال جو اس نقشے کو دیکھ کر
11:23دل میں پیدا ہو سکتا تھا
11:25اس کے بارے میں
11:25پہلے ہی سے حاشی پر
11:27تفصیل درش تھی
11:28سٹیج بنانے کے لیے
11:29تین جگہوں کی نشاندہی کی گئی تھی
11:31کہ جہاں جہاں
11:32سٹیج بننے کا امکان تھا
11:33تین جگہوں کا درمیانی فاصلہ
11:35چند گز سے زیادہ نہیں تھا
11:36یقیناً عدتیہ ورما کو
11:38سنائپرز کے طریقہ کار سے
11:39اچھی طرح واقفیت تھی
11:40میرے نقشہ پڑھنے کے دوران
11:42دھیرج دونوں گلاسوں کی شراب
11:44غسل خانے میں گرا کر آ گیا تھا
11:46گلاس ٹیبل پر رکھ کر
11:47وہ خاموشی سے بیٹھ گیا
11:48نقشہ کو بغور دیکھنے کے بعد
11:50میں نے دو تین چھوٹی چھوٹی باتیں پوچھی
11:52جس کا دھیرج نے تسلی بخش جواب دیا
11:54میں نے ایک اہم سوال پوچھا
11:56رائفل کا کیا کرنا ہے
11:57کیونکہ اگر اس رائفل کی وجہ سے
11:59کسی اپنے کے پھسنے کا ذرا بھی امکان ہوتا
12:02تو مجھے اس رائفل کو بھی سنبھالنا پڑتا
12:04وہ صاف گوئی سے بولا
12:05یہ ایک قیمتی رائفل ہے
12:07اور اس کی خریداری پاک وطن کے
12:09خزانے کے پیسوں سے ہوئی ہے
12:10لیکن یہ آپ کی جان سے قیمتی نہیں
12:12اس کے کہنے کا صاف مطلب یہی تھا
12:14کہ اگر میں خود کو محفوظ رکھتے ہوئے
12:16اس رائفل کو بچا سکتا تھا تو ٹھیک ہے
12:18ورنہ رائفل سے زیادہ اہمیت میری اپنی تھی
12:20وہ میری اہمیت واضح نہ کرتا
12:22تب بھی میں اپنی اہمیت سے واقف تھا
12:24میری اپنی تربیت پر پاک آرمی بہت زیادہ خرچ کر چکی تھی
12:27اور مجھے کچھ نقصان پہنچنے کی صورت میں
12:29خسارہ پاک آرمی کو ہی ہونا تھا
12:31شکریہ کہہ کر میں نے اعلان کیا
12:33کہ میرے پاس مزید سوالات نہیں
12:35وہ بولا آپ کا بھی شکریہ
12:36اس مرتبہ اس نے کھڑے ہو کر مجھ سے الودائی مسافہ کیا
12:39اگر کسی چیز کی ضرورت ہو
12:41یا کچھ پوچھنا ہو تو پرسوں دوپہر تک
12:43میں یہی ملوں گا
12:44اور میں اسبات میں سر ہلاتا ہوا وہاں سے باہر نکل آیا
12:47اگلے دن صبح صویرے ہی
12:48میں بائک پر مطلوبہ پارک کی طرف پڑ گیا
12:50لیزر رینج فائنڈر میں نے ایک لفافے میں ڈال کر
12:53اپنے پاس رکھ لیا تھا
12:54پارک میں داخلے پر کوئی پابندی نہیں تھی
12:57لوگوں کی آمد و رفت سے حوصلہ پا کر
12:59میں بھی اندر گز گیا
13:00پارک کی چار دیواری کی جگہ لوہے کا مضبوط جنگلہ لگا ہوا تھا
13:03جس کی بلندی پانچ فٹ کے قریب تھی
13:05اور پھر جنگلے کے ساتھ لگے ہوئے درخت
13:17اور دکانوں کی چھت پر لا محالہ سیکیورٹی نے موجود ہونا تھا
13:20پارک کے مغربی جانب سڑک گزر رہی تھی
13:22اور سڑک عبور کر کے تین منزلہ شاپنگ پلازا بنا ہوا تھا
13:26شمال اور جنوب کی جانب بھی سڑک گزر رہی تھی
13:28لیکن سڑک کے پار جو امارتیں تھیں
13:30وہاں سے سٹیچ کی جگہ کو دیکھنا آم ناممکن تھا
13:33اب میرے پاس لے دے کے شاپنگ پلازا کی چھت رہ گئی تھی
13:36اس کے علاوہ میں پارک ہی کہ کسی درخت پر مچان بنا سکتا تھا
13:40لیکن ایک تو وہاں مچان بنانا ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور تھا
13:43اور دوسرا میں چھپ کر بیٹھ بھی جاتا اور کامجابی سے اپنا کام کر بھی لیتا
13:47تب بھی میرا بچنا جھوٹ تھا
13:49گویا پارک کے کسی درخت پر مچان بنانے سے بہتر تھا
13:52کہ میں خود کچھ تھماکہ کر لیتا
13:54کم از کم اس طرح رنجیت چوپڑا کی موت تو یقینی ہو جاتی
13:57شاپنگ پلازا کی دائیں طرف سے ایک چوڑی سڑک گزر رہی تھی
14:01جبکہ بائیں جانب ایک زیر تعمیر امارت تھی
14:03جس کی پہلی منزل بھی ابھی تک مکمل نہیں ہوئی تھی
14:06لے دے کے وہاں فائر کے لیے مناسب جگہ شاپنگ پلازا کی چھت تھی
14:10اور میرے خیال کے مطابق وہاں سنتری ضرور تائینات کرنے تھے
14:14پہلے تو میں نے شاپنگ پلازا کی تین اطراف میں گھوم کر اچھی طرح جائزہ لیا
14:18پلازے کی اقبی جانب ایک مارکٹ تھی
14:20دائیں جانب گزرنے والی سڑک کے کنارے ایک بڑا کچردان بنا ہوا تھا
14:24جس کی اقبی دیوار پلازے ہی کی دیوار تھی
14:26باہر سے اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد میں اندر گھج گیا
14:30داخلی دروازے پر واک تھرو گیٹ بنا ہوا تھا
14:33جس سے گزر کر لوگ اندر جا رہے تھے
14:35لیکن مجھے اس گیٹ کا اس لیے کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آیا
14:38کہ کافی لوگوں کے گزرنے پر وہ مخصوص سائرن بجا کر اعلان کر رہا تھا
14:42کہ متعلقہ افراد کے پاس لوہے یا دھات کی کوئی چیز موجود ہیں
14:45لیکن اس کے قریب کرسیاں رکھے دو محافظ اس آواز پر کوئی دھیان نہیں دے رہے تھے
14:50کیونکہ واک تھرو گیٹ کی سیٹی تو موبائل فان اور موٹر سائیکل کار کی چابی وغیرہ سے بھی بجھٹتی ہے
14:56البتہ کسی کے ہاتھ میں بیگ وغیرہ کی موجودگی میں محافظ سرسری انداز میں چیک کر لیتے
15:01میں نے رینج فائنڈر کو اپنے کوٹ کے اندر سے بغل میں داب لیا اور جیبوں میں ہاتھ ڈال کر بے دھڑک واک تھرو سے گزر گیا
15:08موٹے کوٹ کے اندر کسی کو یہ اندازہ نہیں ہو سکا تھا کہ میں نے اپنی بغل میں کوئی چیز پکڑی ہوئی ہے
15:13اوپر جانے کی چوڑی سیڑیاں بنی ہوئی تھی جس پر لوگوں کی آمد و رفت اچھی خاصی تھی
15:17آخری منزل پر پہنچ کر میں چھت پر جانے والی سیڑیوں کی تلاش میں نظریں گھومانے لگا
15:22اور وہ کوئی ایسی چھپی ہوئی نہیں تھی کہ میں تلاش نہ کر سکتا
15:25چھت کی سیڑیاں ایک کونے میں بنی ہوئی تھی
15:27ان کی بائیں جانب لکڑی کے بڑے بڑے ریک پڑے ہوئے تھے
15:30جو مختلف قسم کے سامان سے بڑے ہوئے تھے
15:32جبکہ دائیں جانب دیوار تھی
15:34سیڑیوں پر قدم رکھتے ہی بندہ دوسرے لوگوں کی نگاہوں سے اوجل ہو جاتا تھا
15:38سیلزمین کو نگاہ میں رکھ کر میں سیڑیوں کے جانب غیر محسوس انداز میں کھسکا
15:42اور جو ہی وہ ایک گاہ کی فرمائش پوری کرنے کے لیے پیچھے کی طرف مڑھا
15:46میں نے جھپاک سے سیڑیوں پر قدم رکھ دیا
15:48سیڑیوں کے اختتام پر لوہے کا دروازہ تھا
15:51جس کی کنڈی کے ساتھ حسب توقع ایک تالا جھول رہا تھا
15:54لیکن اس کا اندازہ مجھے پہلے سے تھا
15:56اور اس کا بندوبست بھی میں کر کے آیا تھا
15:58جیب سے دو مڑی ہوئی تارے نکال کر میں تالا کھولنے لگا
16:01یوں بھی انہوں نے ایک واجبی سا تالا لٹکا رکھا تھا
16:04تالا کھول کر میں نے آہستہ سے کنڈی کھولی اور چھت پر نکل آیا
16:08چھت کے دائیں کونے پر پانی کی ایک بڑی ٹینکی بنی ہوئی تھی
16:11اس کے ساتھ ہی تھوڑا بہت کاٹ کبار بھی پڑا ہوا تھا
16:14وہاں سے قریباً سارا پارک نظر آ رہا تھا
16:17خصوصاً وہ جگہ جہاں سٹیج بننا تھا
16:19لیکن مصیبت یہ تھی کہ کل جہاں پر دو تین بندوں کی موجودگی لازمی تھی
16:23یوں بھی ایسی جگہ کوئی احمق ہی نظر انداز کر سکتا تھا
16:27ایک خیال یہ بھی میرے ذہن میں آیا کہ شاید کل سیکیورٹی کے پیش نظر
16:31یہ شاپنگ پلازا ہی بند کر دیا جائے
16:33میں چھت کے کنارے سے سٹیج کے اقب میں موجود دیوار کا فاصلہ ناپنے لگا
16:37وہاں تک 915 میٹر فاصلہ بن رہا تھا
16:40گویا اس لحاظ سے بھی وہ ایک مناسب جگہ تھی
16:42تھوڑی دیر سوچنے کے بعد ایک قابل عمل منصوبہ میرے ذہن میں آیا
16:46گو خطرہ تو اس میں بھی موجود تھا
16:48اور ایک سنائپر کے زندگی یوں بھی ہر دم خطرات میں گھری ہوتی ہے
16:51اس لیے کسی بھی خطرے کا سامنا کرنا سنائپر کے مشن کا لازمہ ہوتا ہے
16:55واپس پلازا میں جا کر میں نے پلاسٹک کی پچاس فٹ لمبی پتلی لیکن مضبوط رسی خریدی
17:00اور ساتھ ایک مضبوط دھاگے کا گولہ بھی خریدا
17:03دونوں چیزیں شاپنگ بیگ میں ڈال کر میں نے ہاتھ میں لٹکائیں
17:06اور سیلزمین کی نظروں سے بچا کر دوبارہ چھت پر پہنچ گیا
17:09رسی کا ایک سرہ پانی کے ٹینک کے ساتھ لگی لوہے کی سیڑی سے باندھ کر
17:14میں نے دوسرا سرہ دھاگے سے باندھا
17:16اور دھاگے کے ساتھ ایک چھوٹا سا پتھر باندھ کر میں نے نیچے کچرہ دان میں پھینک دیا
17:20رسی میں نے اس لیے نہیں لٹکائی تھی کہ وہ کسی کو بھی اپنی جانے متوجہ کر سکتی تھی
17:24جبکہ اتنے باریک دھاگے کا کسی کو نظر آنا آسان نہیں تھا
17:28یہ کام کر کے میں چھت سے نیچے ہوتر آیا
17:30دوسری منزل پر مجھے عورتوں کے خوبصورت سلے سلائے سوٹ نظر آئے
17:34اس وقت جانے کیوں میری آنکھوں میں رومانہ کا خوبصورت سراپا لہرا گیا
17:38بے اختیار میں نے اپنی پسند کے دو سوٹ
17:40ایک گرم اور قیمتی زنانہ سویٹر
17:42اور سرخ اور سبز رنگ کی کانچ کی چھوڑیاں بھی خرید لیں
17:45یوں پلازہ والوں کو مجھ پر شک بھی نہ ہوتا
17:47پلازے کا داخلی اور خارجی دروازہ ساتھ ساتھ ہی تھا
17:50خارجی دروازے پر خریدار کی رسید دکھا کر میں باہر آ گیا
17:54پارکنگ میں جا کر میں نے اپنی بائیک نکالی
17:56میرا رخ ہنومان جی ہوتل کی طرف تھا
17:58آدھے گھنٹے بعد میں وہاں پہنچ گیا تھا
18:01دھیرج مجھے اپنے کمرے میں ہی ملا
18:02جی جناب
18:03میری دستک کے جواب میں دروازہ کھول کر
18:05اس نے اندر آنے کا راستہ دیتے ہوئے
18:07عام سے لہجے میں پوچھا
18:09میں نے کہا مجھے اپنی تصویر والا پولیس کی
18:11سپیشل برانچ کے انسپیکٹر کا کارڈ چاہیے
18:13ضروری نہیں کہ بلکل اصلی ہو
18:15بناوٹی بھی چل سکتا ہے
18:16وہ بولا کوئی مسئلہ نہیں
18:18آپ ذرا اپنے بالوں پر ہاتھ پھر لیں
18:19دھیرج نے جیب سے اپنا موبائل نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا
18:23میں بالوں کو ہاتھ سے کنگی کر کے
18:24اس کے طرف متوجہ ہو گیا
18:26تصویر نکال کر اس نے پوچھا کچھ اور
18:28میں نے کہا دو عدد واکی ٹاکی سیٹ بھی چاہیے
18:30اس نے کہا ٹھیک ہے اور کچھ
18:32میں نے کہا نہیں یہ چیزیں لینے کے لیے
18:34میں کتنے بجے آسکتا ہوں
18:35اس نے کہا دو گھنٹے بعد آ جانا
18:37میں شکریہ کہہ کر وہاں سے نکل آیا
18:39اپنے کوارٹر پر جا کر
18:40میں نے کپڑوں کے سوٹ اور سویٹر کو
18:41علماری میں رکھا
18:42اور اپنے منصوبے پر
18:43از سر نو غور کرنے لگا
18:45اس منصوبے کو سوچتے سوچتے نہ جانے
18:47پھر کیسے رومانہ میرے ذہن میں آ گئی
18:49اور میں اس سادہ اور بھولی بھالی
18:51کشویرن کے خیالوں میں کھو گیا
18:52میں اپنے سفری تھیلے سے
18:53کھانے والا کپڑا نکال کر دیکھنے لگا
18:55اچانک میرے ذہن میں خیال آیا
18:57کہ ضروری تو نہیں
18:57کہ میری واپسی اسی راستے سے ہو
18:59شاید عددیہ ورما نے میرے لیے
19:01کوئی دوسرا راستہ چنا ہو
19:02اور ان حالات میں
19:03کسی سینئر کی احکامات پر
19:05عمل نہ کرنا
19:05خود کو موت کے موہ میں دینے کے مترادف تھا
19:08ان خوشگوار جادوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے
19:10میں اپنے منصوبے پر نظر سانی کرنے لگا
19:12گھڑی پر نگاہ دوڑانے پر
19:13مجھے دو گھنٹے پورے ہوتے نظر آئے
19:15میں کوارٹر سے باہر نکل آیا
19:16تھوڑے در بعد میں
19:17ہنمان ہوتل کے کمرہ نمبر ستائیس میں
19:19داخل ہو رہا تھا
19:20دھیرز نے میری مطلوبہ چیزیں
19:21میری طرف بڑھا دی
19:22دو ووکی ٹاکی سیٹ
19:23اور میرا تعلق پولیس کی
19:25سپیشل برانچ سے ظاہر کرنے والا کارڈ
19:27اس پر میری تصویر بھی جسپاں تھی
19:28کارڈ بنانے والے نے
19:29میرے کپڑوں والی تصویر کو
19:31وردی پہنا دی تھی
19:32جس کے کندوں پر
19:33انسپیکٹر رینگ کے سٹار چمک رہے تھی
19:35آج کل جو بھی
19:35کمپیٹر نے اس کام کو
19:37نہائیت آسان کر دیا ہے
19:38اب ایسا ہے کہ کل جو ہی
19:39رنجیت چوپڑا کی تقریر شروع ہوتی ہے
19:41آپ ووکی ٹاکی کو آن کر کے
19:43عوامی پارک کے سامنے
19:44موجود پلازا کے پاس پہن جانا
19:46اور میں دھیرج کو
19:47تفصیلات سمجھانے لگا
19:49میری بات ختم ہوتے ہی
19:50اس نے پرجوش انداز میں
19:51سر ہلایا ٹھیک ہے
19:52وہاں سے میں نے مارکٹ جا کر
19:53پچاس آٹھ فٹ
19:54مضبوط نائلون کی رسی خریدی
19:56اور واپس کوارٹر پر پہنچ گیا
19:58شام تک کا وقت
19:59میں نے کوارٹر میں گزارا
20:00شام کی آزان سن کر
20:01میں نے نماز پڑھی
20:02اور اللہ پاک سے
20:03اپنے مشن کی کامجابی کی دعا کی
20:04اس کے بعد گیلل سنائپر رائفل
20:06اور دوسرے ضروری سامان
20:08کو سفری بیگ میں ڈال کر
20:09میں دوبارہ کوارٹر سے باہر نکل آیا
20:11شاپنگ پلازا رات کے
20:13نو بجے بند ہوتا تھا
20:14سب سے پہلے میں نے پلازا کے
20:15دائیں کونے میں موجود
20:16کچرہ دان کے قریب جا کر
20:18موٹر سائیکل روکی
20:19اس جگہ پر تقریباً اندھیرہ چایا ہوا تھا
20:21مطلوبہ دھاگہ
20:22ڈھونٹنے میں
20:23مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوا
20:24دھاگے سے پکڑ کر
20:25میں نے پلاسٹک کی رسی
20:27نیچے گھینچ لی
20:27رسی کا سیرہ مضبوطی سے
20:29سفری بیگ کے ساتھ باندھ کر
20:31میں نے بیگ کو کچرے دان میں رکھا
20:32اور اوپر بھی
20:33تھوڑا بہت کچرہ ڈال دیا
20:35رات کے وقت
20:35یوں بھی کسی کی نظر
20:37اس پر نہیں پڑنی تھی
20:38اس سے فارغ ہو کر
20:39میں اپنی موٹر سائیکل
20:40شاپنگ پلازا کے سامنے بنی
20:41پارکنگ میں کھڑی کر کے
20:42اندر چلا گیا
20:43صبح کے مقابلے میں
20:44رات کے اس وقت
20:45وہاں رش زیادہ تھا
20:46مجھے چھت پر پہنچنے میں
20:48کوئی دکت نہیں ہوئی تھی
20:49پہلی فرصت میں
20:50میں نے پلاسٹک کی رسی کی مدد سے
20:51اپنا بیگ اوپر کھینچا
20:52اور پلاسٹک رسی اور بیگ
20:54کارٹ کبار کے ٹھیر میں
20:55چھپا کر
20:56شاپنگ پلازا سے باہر نکل آیا
20:58ووکی ٹاکی میں نے
20:59اپنے پاس ہی رہنے دیا تھا
21:00میرا اس دن کا کام
21:01ختم ہو گیا تھا
21:02اگر اگلے دن
21:03شاپنگ پلازا نے
21:04بند بھی ہونا تھا
21:04تو یقیناً دوپہر کے بعد ہی
21:06ہونا تھا
21:07ویسے امید یہی تھی
21:07کہ شاپنگ پلازا
21:08بند نہ ہوتا
21:09کیونکہ رنجیت چوپڑا
21:10کوئی صدر یا وزیراعظم نہیں تھا
21:12کہ اس کی سیکیورٹی
21:13اتنی زیادہ سخت رکھی جاتی
21:15چینل کو سبسکرائب کیجئے
21:19اور بیل آئیکن پر کلک کیجئے
21:20تاکہ آپ کو تمام ویڈیوز
21:21فوراں ملتی رہیں