Sniper series episode 19 a story full of thrill and suspense operation in india
#sniper
#thrill
#danger
#sniper
#thrill
#danger
Category
😹
FunTranscript
00:00موسیقی
00:30موسیقی
01:00موسیقی
01:30موسیقی
02:00موسیقی
02:30موسیقی
03:00موسیقی
03:30موسیقی
04:00زیادہ تر سرخ گلابی اور گہرے سبز رنگ کا استعمال کیا گیا تھا
04:04اور پھر میری نظریں سرخ پھولوں اور سبز کی بیل سے بھیسلتی ہوئی اس کونے میں جارو کی
04:08جہاں بہت خوبصورت لکھائی میں رومانہ لکھا ہوا نظر آیا
04:12میں نے جلدی سے وہ کپڑا لپیٹ کر جھاڑی کی طرف اچھال دیا
04:15میری بلا سے
04:16سر جھٹک کر میں آگ کی طرف متوجہ ہو گیا
04:19جس کے شولے مدھم پڑتے جا رہے تھے
04:21پاس پڑی خوشک لکڑیاں اس پر ڈال کر میں نے آگ کو تازہ کیا
04:25کھانا کھانے کے بعد سردی کچھ زیادہ ہی محسوس ہونے لگی تھی
04:28یوں بھی وہاں اچھی خاصی سردی تھی
04:30چلتے ہوئے البتہ اتنی سردی محسوس نہیں ہوتی
04:33میں اپنی جمع کی ہوئی لکڑیوں کے جلنے تک وہیں بیٹھ رہا
04:36جو ہی لکڑیاں ختم ہوئیں اپنا تھیلہ پیٹھ پر لٹکا کر میں چل پڑا
04:40چار پانچ قدم لینے کے بعد اچانک مجھے خیال آ گیا
04:43کہ اگر کسی کو کھانے والا وہ کپڑا وہاں پڑا ہوا ملا
04:46تو کیا رومانہ کے نام سے وہ اس تک پہنچ تو نہیں جائے گا
04:49گو یہ بات امکان سے کافی بائید تھی
04:51لیکن اس کے باوجود میں نے پیچھے جا کر وہ کپڑا اٹھا لیا
04:54کہ اسے دہکتے ہوئے انگاروں میں ڈال کر خاکستر کر دوں
04:57لیکن پھر میں وہ کپڑا انگاروں پر نہ پھینک سکا
05:00نیچے اتر کر میں دوبارہ سڑک نابنے لگا
05:02آگے جا کر وہ سڑک دائیں طرف مڑ گئی
05:05نالہ عبور کرنے کے لیے لوہے کا پل بنا ہوا تھا
05:07نالے میں پانی کی مقدار اتنی ہو گئی تھی
05:09کہ اب اسے پل کے بغیر عبور کرنا ناممکن نہیں
05:13تو مشکل ضرور تھا
05:14یوں بھی مسلسل اترائی کی وجہ سے پانی کی رفتار بہت تیز تھی
05:17پل عبور کرنے کے بعد سڑک پختہ ہو گئی تھی
05:20میں صبح کی روشنی ظاہر ہونے تک
05:22یوں ہی بے فکر چلتا رہا
05:24ملگجہ اجالہ ہوتے ہی میری نظر
05:26کسی پناہ گاہ کی تلاش میں سرگردہ ہو گئی تھی
05:29سامنے نظر دوڑانے پر
05:30مجھے سڑک دائیں طرف مڑتی دکھائی دے رہی تھی
05:33اور اسی جگہ دائیں طرف سے
05:34ایک بہت بڑا نالہ اس نالے میں آ کر ملا تھا
05:37جو ہی میں موڑ مڑا
05:39مجھے سامنے ایک کافی کھلی وادی دکھائی تھی
05:41پرشور نالہ جو اچھی خاصی نہر کی شکل
05:44اختیار کر گیا تھا
05:45بائیں طرف پہاڑی کی جڑ میں بہ رہا تھا
05:48جبکہ دائیں طرف بہت بڑی آبادی نظر آ رہی تھی
05:50کچھ گھر نالے کے پار
05:52بائیں طرف کی پہاڑی پر بھی موجود تھے
05:54اور ان کے شہر میں داخل ہونے کے لیے
05:56نالے کے اوپر لکڑی کا ایک جھولتا پل موجود تھا
05:59پہاڑی علاقے میں
06:00اتنی بڑی آبادی کا علاقہ
06:02شہر ہی کہلاتا ہے
06:03کچھ گھروں کی کھڑکیوں سے جھانگتی روشنی
06:06اس بات کا مذر تھی کہ وہاں بجلی موجود تھی
06:08یقیناً وہ اس نالے کے پانی کو
06:10بجلی بنانے کے لیے استعمال کرتے تھے
06:12پہاڑی علاقوں میں بجلی بنانے کا
06:14یہ سب سے اچھا اور سستا طریقہ ہے
06:16اس آبادی کو دیکھ کر میں نے
06:18کلاشنکوف سے جان چھڑانے کا طریقہ سوچنا شروع کر دیا
06:21لیکن وہاں کوئی ایسی جگہ
06:23مجھے نظر نہیں آ رہی تھی
06:24جہاں اسے محفوظ طریقے سے چھپایا جا سکتا
06:27یہاں تک کہ آبادی قریب آ گئی تھی
06:29میں نے سر کھپانا مناسب نہ سمجھا
06:31اور کلاشنکوف ماہ فالتو
06:33میگزین کے نالے میں اچھال دی
06:34میری واپسی جانے کب اور کس طرح ہونا تھی
06:37اور اس کو چھپانے کے لیے
06:39نالے کے تیز رفتار پانی سے
06:41اور کوئی بہتر جگہ نہیں تھی
06:42اب میرے پاس صرف گلاک پسٹل ہی رہ گیا تھا
06:45پسٹل کو میں نے ماہ سالنسر
06:47پیٹ کی طرف سے اپنے لباس میں اڑس لیا
06:49تیز دھار خنجر بھی چمڑے کے کیس میں بند کر کے
06:52میں نے جرابوں میں اڑس لیا تھا
06:53مضبوط پلاسٹی کے بوٹ کچھ عجیب سے لگ رہے تھے
06:56لیکیوں کہ وہاں برف موجود نہیں تھی
06:58اس کا بندوبست میں نے پہلے سے سوچا ہوا تھا
07:00میری پیٹ پر بندے تھیلے میں
07:02سپورٹ شیوز موجود تھے
07:03تھیلے سے سفید رنگ کے سپورٹ شیوز نکال کر
07:06میں نے پاؤں میں ڈالے
07:07اور دوسرے بوٹ ہاتھ میں لٹکا لیے
07:08آبادی میں داخل ہوتے ہی
07:10نسبتاً ایک غریب گھر دیکھ کر
07:12میں نے وہ بوٹ اس کے دروازے پر پھینک دیے
07:14کہ چلو کسی غریب کے کام آ جائیں
07:16زندگی بیدار ہو گئی تھی
07:18چھوٹے سے بازار میں دو تین ہوتلوں پر
07:20مجھے پراتھے بنتے نظر آئے
07:22مجھے کھانے کی کوئی خاص حاجت تو محسوس نہیں ہو رہی تھی
07:25البتہ چائے کی طلب ہو رہی تھی
07:27ایک مناسب ہوتل دیکھ کر میں اس میں گھس گیا
07:29چائے کے ساتھ انڈہ فرائی اور پراتھے کا کہہ کر
07:32میں لکڑی کے بینچ پر ٹک گیا
07:34وہاں تین چار بندے پہلے سے بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے
07:37کسی نے مجھ پر کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی
07:39میں سرامتمن ہو گیا تھا
07:41ہوتل میں ایک ہی آدمی کام کرتا نظر آ رہا تھا
07:44وہی اس کا مالک
07:45وہی باورچی اور وہی بیرہ تھا
07:46اس نے میرے سامنے ناشتہ رکھا
07:48چائے کا پہلا گھونٹ لیتے ہی
07:50مجھے رومانہ کی بنائے ہوئی چائے جادہ گئی
07:52میں نے بیزاری سے سرچٹکا
07:54اور انڈے پراتھے کے ساتھ انصاف کرنے لگا
07:56ناشتہ کر کے میں بل کی ادائیگی کرتا ہوا
07:59ہوتل سے باہر آیا
08:00سورج مشرق سے سر اُبھار رہا تھا
08:02ایک دکان کے سامنے انگریزی میں لکھا ہوا
08:05مین بازار اڑی پڑھ کر
08:06مجھے شہر کا نام معلوم ہوا
08:08میں اندازے ہی سے درست جگہ پہنچ گیا تھا
08:11اڑی کے بعد قریب ترین شہر غالباً دمبا تھا
08:14میرا ارادہ اڑی شہر کے مضافات میں
08:16کسی کا زبردستی مہمان بننے کا تھا
08:18رات بھر کے مسلسل سفر کے بعد
08:20میرے بدن کو آرام کی سخت ضرورت تھی
08:22شاید شب بسری کے لیے بھی
08:24وہاں کوئی ہوتل وغیرہ موجود ہوتا
08:25لیکن ہوتل میں کمرہ لینے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا
08:28کیونکہ جس جگہ وہ شہر موجود تھا
08:30وہاں لازمان انڈین ایجنسیوں کے
08:32ایک دو بندوں نے ضرور موجود ہونا تھا
08:35اور ان کی تفتیش کا سامنا کرنے سے اچھا تھا
08:37کہ میں کسی ویرانے میں دن گزار لیتا
08:39لیکن کچھ آگے جاتے ہی
08:41ایک سٹارٹ ویگن کو دیکھ کر
08:42میں نے اپنا ارادہ تبدیل کرنے میں
08:44ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا
08:46ویگن آدھی سے زیادہ سواریوں سے بھری ہوئی تھی
08:48میں بھی اندر گھس کر ایک سیٹ پر بیٹھ گیا
08:51دس پندرہ منٹ کے انتظار کے بعد
08:52ویگن چل پڑی تھی
08:53مجھے معلوم نہیں تھا
08:54کہ اس کی اگلی منزل کیا ہوگی
08:56اوڑی سے نگلتے ہی کنڈیکٹر
08:58کرایا وصول کرنے کے لیے
08:59سواریوں کی طرف متوجہ ہوا
09:01ایک سواری کے موز سے
09:02دمبا کا نام سن کر
09:03میں نے سکون بھرا سانس لیا
09:05اس نے کنڈیکٹر کی طرف
09:06سو روپے کا نوٹ پڑھایا تھا
09:07کنڈیکٹر نے نوے روپے کاٹ کر
09:09دس روپے اس کی جانے بڑھا دیئے
09:11جب کنڈیکٹر نے میری طرف ہاتھ بڑھایا
09:13تو میں نے پہلے سے گنے ہوئے
09:15نوے روپے اس کی جانے بڑھا دیئے
09:16سڑک پختا تھی
09:17لیکن کئی جگہوں پر مرمت ہونے والی تھی
09:19نالو وغیرہ میں
09:21تو سڑک قریباً ختم ہو چکی تھی
09:22میں زیادہ دیر باہر کے نظارے نہ کر سکا
09:25اور سامنے والی سیٹ پر
09:26سڑھ ٹک کر
09:27خواب کے سفر پر روانہ ہو گیا
09:29نجانے کیسے سپنے میں
09:30مجھے رومانہ دکھائی تھی
09:32کسی گڑے کو عبور کرتے ہوئے
09:34ویگن کو سخت جھٹکا سا لگا تھا
09:35اور میری آنکھ کھل گئی تھی
09:37دائیں بائیں نظر دوڑانے پر
09:39مجھے زیادہ تر سواریاں
09:40انگتی ہوئی نظر آئیں
09:41ٹیپ ریکارڈر وغیرہ کی سہولت
09:43شاید ڈرائیور کے پاس موجود نہیں تھی
09:44تب ہی گانے بجانے کی بے ہنگم شور
09:47کی بجائے ویگن میں خاموشی چھائی ہوئی تھی
09:48دوبارہ آنکھیں بند کرتے ہوئے
09:50میں خواب کے دلکش مناظر کو تصور ملانے لگا
09:53اچانک میں نے خود کو کوسا
09:54یہ میں کیا سوچ رہا ہوں
09:56کل سے میری سوچیں بے اختیار ہو کر
09:57رومانہ کو یاد کرنے لگتی
09:59یہاں تک کہ تھوڑی سی آنکھ لگتے ہی
10:01وہ میرے خیالوں میں ادر آئی تھی
10:02ماہین کا دیا ہوا گھاؤ ابھی تک بھرا نہیں تھا
10:05اور دل کمبخت کسی اور خوش جمال کے ہاتھوں
10:08برباد ہونے پر کمر بستہ ہو گیا تھا
10:10میں نے دل ہی دل میں خود کو سمجھانے کی کوشش کی
10:12کافی دیر دل نادا کو نصیحتوں کا پرچار کرنے کے بعد
10:16میری آنکھ لگی
10:16اور رومانہ کود کر میری نظروں کے سامنے آ گئی
10:20وہ خوبصورت لباس پہنے سر پر تاد سجائے ہوئے
10:23ایک بڑے پتھر سے ٹیک لگائے
10:24بکری کے میمنے سے اٹھکے لیاں کر رہی تھی
10:26ساری نصیحتیں اور ساری خیرخواہی کے مشورے دل
10:29نے بغیر کسی دلیل کے رد کر دیئے تھے
10:32کبھی کبھی وہ ترچی نگاہ مجھ پر ڈال لیتی
10:34اور ایسا کرتے ہی اس کے ہونٹوں پر
10:36دلکش مسکراہت نمودار ہوتی
10:38میں نے اسے اپنے پاس بلایا
10:39اب اس میمنے کی جان چھوڑو اور میرے قریب آؤ
10:41میں اس وقت اپنی مچان میں ہی لیٹا ہوا تھا
10:44نا جی نا
10:44اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے
10:46اپنے خوبصورت دانتوں کی نمائش کی
10:48مجھے جھوٹے اجنبی پر بھروسہ نہیں
10:50میں نے بظاہر خفگی ظاہر کی یہ بات ہے
10:53ارے مزاگ کر رہی تھی
10:54آپ تو خفا ہو گئے
10:55اپنے پیارے اجنبی کو بھلا کیسے خفا کر سکتی ہوں
10:58میمنے کو گوت سے اتار کر
11:00وہ صبح قدموں سے میرے مچان کی طرف آنے لگی
11:02اسی وقت جھاڑیوں کی اوٹ سے ماہین نکلی
11:05اس نے ہاتھ میں بہت بڑا چھورا پکڑا ہوا تھا
11:07اس نے دور ہی سے رومانہ کو للکارا
11:09خبردار اگر میرے شانی کے قریب گئیں
11:11رومانہ بولی یہ میرا جنبی ہے
11:13رومانہ اس کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو گئی
11:15ماہین کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے چھورے کی پرواہ
11:17اس نے بالکل نہیں کی تھی
11:18میرا خیال ہے تمہاری سمجھ میں ایسے نہیں آئے گا
11:21ماہین نے بلا خوف و خطر رومانہ کے پیٹ میں چھورا گھوم دیا
11:25اسے روکنے کے لیے میں نے مچان سے نیچے چھلانگ لگائی
11:27اور اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی
11:29اس کے بعد دمبہ تک میری آنکھ نہیں لگی تھی
11:32میں بلا ارادہ اسی اوٹ پٹانگ خواب کو سوچتا رہا
11:35رومانہ کا یوں بار بار اپنے خواب میں آنا
11:38مجھے جو باور کروا رہا تھا
11:39میرا دماغ وہ ماننے کو تیار نہیں تھا
11:42چند گھنٹے ایک انجان لڑکی کے ساتھ گزار کر
11:44بے وقوف دل چانے کیا امیدیں باندھ پیٹا تھا
11:47جب رومانہ کی یادوں نے کچھ زیادہ ہی پر پرزے نکالنے شروع کیے
11:50تو تنگ آ کر میں نے اپنی سوچوں کا دھارہ مشن کی طرف موڑ دیا
11:54امبالا جا کر مجھے پاکستانی جاسوس عدتیہ ورمہ سے
11:57ہدف کے بارے میں مکمل تفصیلات پتا چلنا تھی
12:00اور اس کے ساتھ اس نے ڈریگن آف رائیفل بھی میرے حوالے کرنا تھی
12:03رقم اور ضرورت کی کسی اور چیز کا بندوبست بھی عدتیہ ورمہ نے ہی کرنا تھا
12:08اس کا اسلامی نام مجھے نہیں بتایا گیا تھا
12:10البتہ عدتیہ ورمہ کے نامل سکنے کی صورت میں مجھے دو اور نام بھی بتایا گئے تھے
12:15لیکن ان سے اشد ضرورت کے علاوہ رابطہ کرنے کی ممانعت تھی
12:18یوں بھی ان میں سے ایک دلی اور دوسرا آگرے میں تھا
12:21اس کے بعد دمبہ آنے تک میں اپنے حدف کو ٹھکانہ لگانے کے منصوبے سوچتا رہا
12:26سنائپرز کو شروع شروع میں صرف میدان جنگ اور سرحدوں پر ہی استعمال کیا جاتا تھا
12:31لیکن اب تو سنائپرز ہر قسم کی روایتی اور غیر روایتی جنگ میں استعمال ہو رہے تھے
12:36بلکہ ترقی آفتہ ممالک میں تو کئی قسم کی اجرتی قاتل سنائپنگ کر کے ہی
12:40مطلوبہ افراد کو ٹھکانے لگا رہے ہیں
12:43خود میں بھی امریکہ میں جا کر ایک ایسی ہی کاروائی کا حصہ بن چکا تھا
12:47دمبہ کا محل وقوب ہی اڑی شہر سے مختلف نہیں تھا
12:50وہی پہاڑ وہی پرشور نالا جس میں پانی کی مقدار پہلے سے کافی زیادہ ہو گئی تھی
12:55اور ویسے ہی گھر جو پہاڑی علاقے کا خاصہ ہیں
12:58ہم دوپہر ڈھلے ہی وہاں پہنچ پائے تھے
13:00پوری رات کے پیدل اور پھر ویگن کے غیر آرامد سفر نے مجھے اچھا خاصہ تھگا دیا تھا
13:05گو ایک سنائپر کے لیے تھکن بے آرامی مسلسل جاگنا اور بھوکا پیاسا رہنا کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے
13:11کہ سنائپر میں عام آدمی کے برعکس برداشت کا مادہ زیادہ ہونا چاہیے
13:15یہ برداشت کچھ تو قدرتی طور پر انسان میں موجود ہوتی ہے
13:19اور کچھ اسے تربیت جلا بخشتی ہے
13:21لیکن اس کے باوجود میں چاہتا تھا کہ کچھ دیر آرام کر لوں
13:24ویگن سے اتر کر میں سمت کا تائین کیے بغیر چل پڑا
13:27صبح ناشتہ کرنے کی وجہ سے مجھے کوئی خاص بھوک محسوس نہیں ہو رہی تھی
13:31دمبا کا بازار اڑی شہر سے کچھ بڑا تھا
13:34لیکن وہاں ہوتلز میں مجھے رہائش وغیرہ کا انتظام نظر نہ آیا
13:38مجبوراں مجھے کھوکے والے سے معلومات لینا پڑی
13:41اس کے جواب کا لب لباب یہی تھا کہ وہاں ایسے کئی گیسٹ ہاؤس موجود تھے
13:45جہاں کرائے پر کمرے بھی دستیاب تھے اور بسترے بھی
13:48بستروں کی بابت پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک بڑے کمرے میں کئی بستر لگے ہوتے تھے
13:53گیسٹ ہاؤس کا مالک چوبیس گھنٹوں کے لیے ایک بستر کے چالیس روپے وصول کرتا تھا
13:57گرمیوں میں وہاں سیاہوں کا کافی رش رہتا تھا
14:00اب اس ردیوں کی وجہ سے کوئی سیاہ دکھائی نہیں دے رہا تھا
14:04یہ مفید معلومات لے کر میں اسی کھوکے والے سے ایک گیسٹ روم کا پوچھ کر اس چانب روانہ ہو گیا
14:09وہ عبادی قریبا مسلمانوں ہی کی تھی
14:11لیکن اس کے ساتھ ہندو سکھ اور دوسرے مذاہب کے افراد بھی خال خال موجود تھے
14:16اس کا اندازہ مجھے دکانوں کے نام پڑھ کر ہی ہو گیا تھا
14:19نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے ایک ہندو کے مسافر خانے میں کمرہ لیا
14:23کیونکہ ایجنسیوں کے بندوں کی نظریں زیادہ تر مسلمانوں کے ہوتلز اور مسافر خانوں پر گڑی رہتی ہیں
14:28اور پھر میں ایک ہندو کی شناخت ہی سے سفر کر رہا تھا
14:32البتہ کمرہ لینے سے پہلے میں نے ایک چھوٹے سے ہوتل میں کھانا کھا لیا تھا
14:36جو کہ کسی مسلمان کی ملکیت تھا
14:38کیونکہ جس مذہب میں گائے کا پیشاب پینا عبادت سمجھی جائے
14:41جو اپنے تائیں ہر پلیت چیز کو گاؤ ماتا کے پیشاب کے چھینٹوں سے پوتر کر دیں
14:46ایسے لوگوں کا پکا ہوا کھانا کھانا نری بے وکوفی ہی تو تھی
14:49چھوٹے سے کمرے میں ایک چار بائی پڑی تھی
14:51اس پر بچھا ہوا بستر بھی اس قابل ضرور تھا کہ اس میں گھس کر چند گھنٹے آرام کر لیا جائیں
14:56کمرے سے ملحق چھوٹے سے غسل خانے اور بیت الخلا کی سہولت بھی موجود تھی
15:00دروازہ اندر سے کنڈی کر کے میں لمبی تان کر سو گیا
15:03میری آنکھ شام کو کھلی تھی
15:05غسل کی حاجت محسوس ہو رہی تھی
15:07اور گرم پانی بھی وہاں موجود تھا
15:09غسل کر کے میں نے باہر جا کر پیٹ پوجا کی اور واپس آ کر پھر سو گیا
15:12اگلی صبح میں بس میں بیٹھا جالندر کی طرف روان دوان تھا
15:16جالندر میں میں نے بس اڈے پر ہی کھانا کھایا
15:19اور تھوڑی دیر بعد وہیں اڈے پر گھومتا رہا
15:21ضرورت کی ایک دو چھوٹی موٹی چیزیں بھی میں نے خرید لی تھی
15:24اس کے بعد میں امبالہ جانے والی بس میں بیٹھ گیا
15:27امبالہ جاتے ہوئے رستے میں کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا تھا
15:30میں اپنی سیٹ پر بیٹھا انگتا رہا
15:32یا آگے والی سیٹ پر سر ٹیک کر سو گیا
15:34اس سوتے جاگتے کی کیفیت میں میری سوچوں کا مرکز نہ چاہتے ہوئے بھی رومانہ بنی رہی
15:39البتہ میں ہمیشہ ان سوچوں کو جھٹکتا رہا
15:42امبالہ پہنچ کر میں نے ایک درمیانی درجے کے ہوتل میں کمرہ لیا اور سو گیا
15:46دوپہر ایک بجے کے قریب اٹھ کر میں تازہ دم ہو کر کمرے سے نکل آیا
15:50اپنا پسٹول میں نے وہیں کمرے میں ہی چھپا دیا تھا
15:52شہر میں پسٹول اپنے ساتھ رکھنا مناسب نہیں تھا
15:55عادتیا ورما کا پتہ میری جاداشت میں محفوظ تھا
15:58وہ کپڑے کے کاروبار سے منسلک تھا
16:00مین بازار میں اس کی کپڑے کی بہت بڑی دکان تھی
16:03جہاں صبح آٹھ بجے سے لے کر شام کی آزان تک وہ بیٹھا رہتا
16:07اس دکان کے اقب میں اس نے کپڑے کے بڑے گودام بھی بنا لیے تھے
16:10امبالہ جالندھر اور ان شہروں کے مضافاتی قسموں
16:14دہاتیوں کے زیادہ تر کپڑے کے تاجر اسی سے کپڑا خریدتے تھے
16:18اس کی دکان ڈھونٹتے ہوئے مجھے ذرہ بھی مشکل پیش نہیں آئی تھی
16:21دکان پر کافی رشت تھا
16:23تین چار لڑکے مسلسل گاہکوں کو نبٹا رہے تھے
16:26میں نے عدتیہ ورمہ کی تلاش میں نظریں دوڑائیں
16:28اس کا حلیہ مجھے بڑی تفصیل سے بتا دیا گیا تھا
16:31لیکن مجھے اپنے مطلوبہ حلیہ کا کوئی آدمی نظر نہ آیا
16:34اس وسی دکان کے ایک کونے میں شیشے کا چھوٹا سا کیبن بنا ہوا تھا
16:38جس کے شیشوں سے باہر سے اندر کا منظر نہیں دیکھا جا سکتا تھا
16:41مجھے امید تھی کہ اس کے اندر بیٹھنے والی شخصیت عدتیہ ورمہ کی تھی
16:45اور پھر دکان کے ایک ملازم سے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے
16:50میں شیشے کے اس کیبن کی طرف پڑ گیا
16:51شیشے کے اس چھوٹے سے کیبن میں
16:53وہ ایک خوبصورت سی میز کے اقب میں گھومنے والی آرامد کرسی پر بیٹھا ہوا تھا
16:58اس کی عمر مجھے پچاس سال کے قریب بتائی گئی تھی
17:01لیکن دیکھنے میں وہ چالیس سے زیادہ کا نہیں لگ رہا تھا
17:04وہ کلین شیف تھا
17:05اس کے سامنے دھری میز پر مختلف فائلوں کے ساتھ لیپ ٹاپ بھی نظر آ رہا تھا
17:09میز کے سامنے تھری سیٹر سوفا رکھا ہوا تھا
17:12جس پر دو اچھے تنو توش کے حضرات براجمان تھے
17:15کہ ان کی موجودگی میں تیسرے آدمی کے بیٹھنے کی گنجائش نہیں تھی
17:18دائیں طرف دو فوم کی کرسیاں بھی رکھی ہوئی تھی
17:21میرے اندر داخل ہوتے ہی عدیتہ ورمہ نے فوم کی کرسیوں کی طرف اشارہ کر کے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا
17:26یقیناً اجنبی افراد کی آمد اس کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی
17:30روزانہ کپڑے کے درجنوں بیوپاریوں کی آمد و رفت وہاں ہوتی ہوگی
17:34میرے وہاں بیٹھتے ہی سوفے میں دھسے ہوئے ایک فرد نے سلسلہ کلام جڑا
17:38لالا جی دو مہینے تو آپ کو بڑھانا ہوں گے
17:41عدیتہ ورمہ نے کاروباری مسکرہ ہٹ چہرے پر سجالی تھی
17:44مکرم بھائی چھے ماہ تو کم نہیں ہوتے
17:46اس کے لہجے سے حویدہ مطانت اس کے اچھے کاروباری ہونے کی دلیل تھی
17:50اس مرتبہ مکرم کے ساتھ بیٹھے ہوئے دوسرے آدمی نے زبان کھولی
17:54اچھا نہ آپ کا نہ ہمارا سات ماہ کے اندر ہم مکمل ادائیگی کے ذمہ دار ہوں گے
17:58عدیتہ ورمہ نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا
18:01ہم چلو جیسے آپ کی اچھا
18:03اور ان دونوں کے چہرے پر مسکرہ ہٹ دوڑ گئی
18:05مکرم نے کہا تو پھر لڑکوں کو لوڈنگ کا بتا دیں
18:08عدیتہ ورمہ نے اس بات میں سر ہلاتے ہوئے اپنے سامنے تیبل پر پڑی گھنٹی کا بٹن دبایا
18:13چند سیکنڈز کے اندر ایک نوجوان اندر داخل ہوا
18:16محط مکرم صاحب کا یہ کپڑا لوڈ کر دو
18:19عدیتہ ورمہ نے میز پر پڑی ایک فہرست اٹھا کر محط نامی نوجوان کی طرف بڑھا دی
18:24محط نے جی لالا جی کہہ کر اس کے ہاتھ سے کاغذ لیا اور دفتر سے باہر نکل گیا
18:30محط کے باہر جاتے ہی عدیتہ ورمہ میری جانے متوجہ ہوا جی بھائی
18:34میں نے براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مخصوص کوڈ دھوڑایا
18:38لالا جی سنا ہے لٹھے کا بھاؤ کافی نیچے آ گیا ہے کیا یہ سچ ہے
18:41یہ الفاظ سنتے ہی مجھے اس کی آنکھوں میں بے چینی کی لہر اٹھتی نظر آئی
18:45لیکن اس نے اپنی چہرے پر کوئی ایسا تاثر ظاہر نہیں ہونے دیا تھا
18:48میں دل ہی دل میں اس کے مضبوط آساب کا قائل ہو گیا
18:51اس نے متبسم ہو کر نرم لہجے میں جوابی کوڑ دھوڑایا
18:55ایسی افواہیں عموماً سننے میں آتی رہتی ہیں
18:57مکرم اور اس کا ساتھی بھی عدیتہ ورمہ کی بات پر مسکرا پڑے تھے
19:01میں نے نادم انداز میں اگلا کوڑ بھی دھوڑایا
19:04میں بس تصدیق کرنے ہی آیا تھا
19:06تاکہ شک کی گنجائش بھی ختم ہو جائے
19:08عدیتہ ورمہ نے قیقہ لگا کر کوڑ کے آخری حصے کو دھوڑایا
19:12ہاں ہم بھی لوگوں کی غلط فہمیاں دور کرنے کو تو بیٹھے ہیں
19:15میں نے انکسار بھرے لہجے میں جواب دیا شکریہ لالہ
19:19میں نے اپنی پہچان کرا دی تھی
19:20اس کے بعد میں عدیتہ ورمہ کی سواب دید پر تھا
19:23کہ کس طرح وہ مجھے حدف سے متعلق معلومات پہنچاتا ہے
19:26اور کس طرح مجھے مطلوبہ سامان میرے حوالے کرتا ہے
19:30عدیتہ ورمہ نے مکرم وغیرہ کی وجہ سے سلسلہ ایک علام جاری رکھا
19:33کیونکہ اس کے علاوہ تو میرے وہاں بیٹھنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی
19:37اس نے پوچھا ویسے آپ کو کتنا لٹھا چاہیے
19:39میں نے کہا چھوٹا سا دکاندار ہوں لالا جی
19:41اب کیا کہوں
19:42وہ بولے اچھا اس بارے میں بات کر لیتے ہیں
19:44پہلے میرا خیال ہے کہ چائے پی لیں
19:46اس مرتبہ اس نے پھر سامنے پڑی گھنٹی بجا دی
19:49عدیتہ نے ان دونوں سے دریافت کیا
19:51آپ لوگ یقیناً چائے لینا پسند کریں گے
19:53مکرم نے بمشکل صوفے سے اٹھتے ہوئے انکار میں سر ہلایا
19:56شکریہ لالا جی
19:57اس کا ساتھ ہی بھی اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا
19:59ہم اب اجازت چاہیں گے
20:01عدیتہ نے بھی کھڑے ہو کر ان سے الودائی مسافہ کیا
20:04اور گھنٹی کی آواز پر اندر آنے والے لڑکے کو دو چائے کا بتا کر
20:09وہ دوبارہ میری جانے متوجہ ہو گیا
20:11آپ کا نام پوچھ سکتا ہوں
20:12میں نے کہا کرن مہتا
20:13وہ بولا کہاں ٹھہرے ہو
20:15اس نے میرا اصل نام جاننے کی خواہش نہیں کی تھی
20:17میں نے کہا ہنومان جی ہوتل کمرہ نمبر ستائیس
20:20اس نے کاغذ پر ایک پتہ لکھ کر میری طرف بڑھا دیا
20:23فیلحال جہاں پہنچو
20:24یہ ایک چھوٹا سا کوارٹر ہے
20:26یہ کہتے ہوئے اس نے دراز سے ایک چابی بھی نکال کر مجھے دی
20:29جب تک مزید معلومات نہیں ملتی
20:31آپ نے کہیں بھی نہیں جانا
20:32کھانا آپ قریب ہوتل سے کھا لیا کریں
20:34ٹھیک ہے سر
20:35میں نے اس کی عمر اور انڈیا میں گزارے ہوئے عرصے کو دیکھتے ہوئے
20:39مودبانہ لہیجے میں کہا
20:40اس نے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی تنبیح کے انداز میں اٹھا کر
20:44نفی میں سر ہلایا
20:45میں نے فوراں اسبات میں سر ہلا دیا
20:47جی لالا جی
20:48اب جاؤ چائے پینا کوئی اتنا ضروری نہیں
20:50اس نے مجھے جانے کا اشارہ کیا
20:52اور میں ہندووں کے انداز میں نمسکار کرتا ہوا وہاں سے باہر نکل آیا
20:56میرے دل میں اس کی ذات کے بارے میں ہلکی سی کریت تو ضرور موجود تھی
21:00لیکن اپنے اندر میں اتنی جرت مفقود پاتا تھا
21:03کہ اس سے کچھ دریافت کر سکوں
21:04وہ ایک خاموش مجاہد تھا
21:06جانے کتنے سال اس نے مادر وطن کے لیے قربان کر دیئے تھے
21:09اپنی جوانی کے بہترین دن یوں گزار دینا اتنا آسان نہیں ہوتا
21:13اپنے علاقے، گھر، والدین، بہن بھائیوں اور بیوی وغیرہ کے لیے
21:17اس کی حیثیت ایک مردے سے بڑھ کر نہیں تھی
21:19سب سے بڑھ کر وہ اتمنان اور سکون سے اپنے رب کے سامنے سر نہیں چھکا سکتا تھا
21:24اور گھر میں ایک ہندو بیوی کے ہوتے ہوئے شاید اسے چھپ کر بھی نماز پڑھنے کا وقت نہ ملتا ہو
21:29اس جیسے کئی اور خاموش مجاہد بھی انڈیا میں موجود ہیں
21:32جن کا مقصد زندگی ہی پاک وطن کے خلاف سازشوں کو بے نقاب کرنا
21:36اور اپنے ازلی دشمن کے خلاف ایسی کاروائیاں جاری اکھنا ہوتا ہے
21:40جس سے دشمن کو سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکے
21:43عوام کو شاید پتا نہ ہو کہ ایسے خاموش مجاہدوں کی وجہ سے
21:47جانے کتنی بار پاکستان جنگ کا انتھن بننے سے بچا ہے
21:51اور کتنی بار ایسی سازشیں تکمیل سے پہلے ہی تشتزبام ہو گئیں
21:55جن پر عمل درامت کی صورت میں پاکستان مزید کئی ٹکڑوں میں بڑھ چکا ہوتا
21:59بنگلہ دیش کے بارے میں بھی ان مجاہدوں نے بہت پہلے ساری سازش کا پتہ جلا لیا تھا
22:04لیکن ہماری خودغرص قیادت نے اس بارے میں غور خوض کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی
22:09بلکہ ہمارے کچھ سیاستدان تو خود ایسا ہونے دینا چاہتے تھے
22:13ان کے نزدیک بنگلہ دیش کا لہدہ ہو جانا ہی مفید تھا
22:16بہرحال یہ ایک لمبی بحث ہے اور اس کا میری کہانی سے کوئی تعلق نہیں
22:20یوں بھی پاک آرمی کی عالی قیادت کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں
22:24تو میرے جیسے عام سپاہی کی حیثیت کیا ہی ہوگی
22:28چینل کو سبسکرائب کیجئے اور بیل آئیکن پر کلک کیجئے
22:34تاکہ آپ کو تمام ویڈیوز فوراں ملتی رہیں