Mirza Ghalib || Khat (Letter) || Banam Mirza Hatim Ali Mehr || 1850 || خطوط غالب سیریز

  • 11 days ago
Mirza Hatim Ali Beg Mahr
Pen Name :'Mehr'
Real Name :Mirza Hatim Ali Beg
Born :15 Apr 1815 | Aligarh, Uttar pradesh
Died :18 Aug 1879 | Etah, Uttar pradesh

*******************************
voice: Jauhar Abbas
Presentation: Saeed Jafri
*********************************
خط مرزا غالبؔ بنام حاتم علی مہر

بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟
غلامِ ساقیء کوثر ہوں، مجھ کو غم کیا ہے
سخن میں خامہء غالبؔ کی آتش افشانی
یقیں ہےہم کو بھی، لیکن اب اُس میں دم کیا ہے؟
علاقۂ محبتِ ازلی کو برحق مان کر اور پیوندِ غلامیِ جنابِ مرتضیٰ علیؑ کو سچ جان کر ایک بات اور کہتا ہوں کہ بینائی اگرچہ سب کو عزیز ہے مگر شنوائی بھی تو آخر ایک چیز ہے۔ مانا کہ روشناسی اس کے اجارے میں آئی ہے، یہ بھی دلیلِ آشنائی ہے۔ کیا فرض ہے کہ جب تک دید وا دید نہ ہو لے اپنے کو بیگانہء یک دِگر سمجھیں، البتہ ہم تم دوستِ دیرینہ ہیں، اگر سمجھیں۔ سلام کے جواب میں خط بہت بڑا احسان ہے خدا کرے وہ خط جس میں مَیں نے آپ کو سلام لکھا تھا، آپ کی نظر سے گزر گیا ہو۔ احیاناً اگر نہ دیکھا ہو تو اب مرزا تفتہؔ سے لے کر پڑھ لیجیے گا اور خط کے لکھنے کے احسان کو اُس خط کے پڑھ لینے سے دوبالا کیجیے گا۔
ہائے میجر جان جاکوب کیا جوان مارا گیا ہے، سچ، اس کا شیوہ یہ تھا کہ اردو کی فکر کو مانع آتا اور فارسی زبان میں شعر کہنے کی رغبت دلواتا۔ بندہ نواز یہ بھی اُن ہی میں ہے کہ جن کا میں ماتمی ہوں۔ ہزار ہا دوست مر گئے۔ کس کو یاد کروں اور کس سے فریاد کروں؟
جیوں تو کوئی غم خوار نہیں، مروں تو کوئی عزادار نہیں۔
غزلیں آپ کی دیکھیں۔ سبحان اللہ، چشمِ بددُور۔ اُردو کی راہ کے تو سالک ہو، گویا اس زبان کے مالک ہو۔ فارسی بھی خوبی میں کم نہیں۔ مشق شرط ہے۔ اگر کہے جاؤ گے لطف پاؤ گے۔ میرا تو گویا بقول طالبِؔ آملی اب یہ حال ہے:
لب از گفتن چناں بستم کہ گوئی
دہن بر چہرہ زخمے بود، بِہ شد
جب آپ نے بغیر خط کے بھیجے خط مجھ کو لکھا ہو تو کیوں کر مجھ کو اپنے خط کے جواب کی نہ تمنا ہو؟ پہلے تو اپنا حال لکھیے کہ میں نے سُنا تھا آپ کہیں کے صدرِ امین ہیں، پھر اکبر آباد میں کیوں خانہ نشین ہیں؟ اس ہنگامے میں آپ کی صحبت حکام سے کیسی رہی؟ راجہ بلوان سنگھ کا بھی حال لکھنا ضرور ہے کہ کہاں ہیں اور وہ دو ہزار روپیہ مہینا جو اُن کو سرکار انگریزی سے ملتا تھا ، اب بھی ملتا ہے یا نہیں؟
ہائے لکھنؤ! کچھ نہیں کھلتا کہ اُس بہارستان پر کیا گزری۔ اموال کیا ہوئے، اشخاص کہاں گئے؟ خاندانِ شجاع الدولہ کے زن و مرد کا انجام کیا ہوا؟ قبلہ و کعبہ مجتہد العصر کی سرگزشت کیا ہے؟ گمان کرتا ہوں کہ بہ نسبت میرے تم کو کچھ زیادہ آگہی ہو گی۔ امیدوار ہوں کہ جو آپ پر معلوم ہے، وہ مجھ پر مجہول نہ رہے۔ پتا مسکنِ مبارک کا کشمیری بازار سے زیادہ نہیں معلوم ہوا۔ ظاہرا اسی قدر کافی ہو گا، ورنہ آپ زیادہ لکھتے۔
میرزا تفتہؔ کو دعا کہیے گا اور اُن کے اُس خط کے پہنچنے کی اطلاع دیجیے گا، جس میں آپ کے خط کی اُنھوں نے نوید لکھی تھی۔ والسلام اوائلِ جولائی 1858ء غالب

Recommended