Tafheem-ul-Quran | Al-Fatiha

  • 12 years ago
’’الفاتحہ‘‘

اس کا نام ’’الفاتحہ‘‘ اس کے مضمون کی مناسبت سے ہے۔ ’’فاتحہ‘‘ اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی مضمون یا کتاب یا کسی شے کا افتتاح ہو۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ یہ نام ’’دیباچہ‘‘ اور آغازِ کلام کا ہم معنی ہے۔
یہ نبوت محمدی ﷺ کے بالکل ابتدائی زمانہ کی سورت ہے بلکہ معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے سب سے پہلی مکمل سورت جو محمد ﷺ پر نازل ہوئی، وہ یہی ہے۔ اِس سے پہلے صرف متفرق آیات نازل ہوئی تھیں جو سورہ علق، سورہ مزّمّل اور سورہ مدثّر وغیرہ میں شامل ہیں۔
دراصل یہ سورہ ایک دعا ہے جو خدا نے ہر اُس انسان کو سکھائی ہے جو اس کی کتاب کا مطالعہ شروع کر رہا ہو۔ کتاب کی ابتدا میں اس کو رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم واقعی اس کتاب سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو پہلے خداوند عالم سے یہ دعا کرو۔
انسان فطرتاً دعا اُسی چیز کی کیا کرتا ہے جس کی طلب اور خواہش اس کے دل میں ہوتی ہے، اور اُسی صورت میں کرتا ہے جبکہ اسے یہ احساس ہو کہ اس کی مطلوب چیز اُس ہستی کے اختیار میں ہے جس سے وہ دُعا کر رہا ہے۔ پس قرآن کی ابتدا میں اِس دُعا کی تعلیم دے کر گویا انسان کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ اس کتاب کو راہَ راست کی جستجو کے لئے پڑھے، طالبِ حق کی سی ذہنیت لے کر پڑھے، اور یہ جان لے کہ علم کا سر چشمہ خداوندِ عالم ہے، اس لیے اسی سے رہنمائی کی درخواست کر کے پڑھنے کا آغاز کرے۔
اِس مضمون کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن اور سورہ فاتحہ کے درمیان حقیقی تعلق کتاب اور اس کے مقدمہ کا سا نہیں بلکہ دُعا اور جوابِ دُعا کا سا ہے۔
سورہ فاتحہ ایک دُعا ہے بندے کی جانب سے، اور قرآن اس کا جواب ہے خدا کی جانب سے۔ بندہ دُعا کرتا ہے کہ اے پروردگار! میری رہنمائی کر۔ جواب میں پروردگار پورا قرآن اس کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ یہ ہے وہ ہدایت و رہنمائی جس کی درخواست تو نے مجھ سے کی ہے۔