• last week
Main Kaar-e-Jahan Se Nahin Aagah, Wa Lekin
Arbab-e-Nazar Se Nahin Poshida Koi Raaz

I may not be aware of the affairs of the world,
But no secret is hidden from the people of insight.

Kar Tu Bhi Hukumat Ke Wazeeron Ki Khushamd
Dastoor Naya, Aur Naye Dour Ka Aghaz

Flatter the ministers of the government as well,
A new constitution, and the beginning of a new era!

Maloom Nahin Hai Ye Khushamd Ke Haqiqat
Keh De Koi Allu Ko Agar ‘Raat Ka Shahbaz’!

I do not know whether it is flattery or reality,
If someone calls an owl the ‘royal falcon of the night’!

(Zarb-e-Kaleem-154) Khushamad (Flattery)

مَیں کارِ جہاں سے نہیں آگاہ، و لیکن
اربابِ نظر سے نہیں پوشیدہ کوئی راز

کارِ جہاں : دنیا کے معاملات، دنیاوی امور۔ اربابِ نظر: اہلِ بصیرت، وہ لوگ جو گہری نظر رکھتے ہیں

اقبالؒ فرماتے ہیں کہ بظاہر وہ دنیا کے معاملات اور چالاکیوں میں براہِ راست مداخلت نہیں کرتے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ان سے بے خبر ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ جو لوگ گہری بصیرت رکھتے ہیں، ان کے لیے دنیا کے کسی نظام کا راز چھپا ہوا نہیں ہوتا۔ اہلِ نظر ہمیشہ جان لیتے ہیں کہ اقتدار کے پسِ پردہ کیا چالاکیاں اور چالیں چل رہی ہیں، کون مخلص ہے اور کون محض اپنے مفادات کی خاطر سیاست کر رہا ہے۔ اقبالؒ یہاں اس سچائی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ دنیا کے طاقتور لوگ اپنی سازشوں کو عام عوام سے چھپا سکتے ہیں، مگر صاحبِ بصیرت ان کے عزائم کو بھانپ لیتے ہیں۔

کر تُو بھی حکومت کے وزیروں کی خوشامد
دستور نیا، اور نئے دَور کا آغاز

خوشامد :چاپلوسی، کسی کو خوش کرنے کے لیے غیر ضروری تعریف کرنا۔دستور: قانون، طریقہ کار۔ دَور: زمانہ، وقت

اقبالؒ فرماتے ہیں کہ اگر تم بھی اقتدار میں موجود حکمرانوں اور وزیروں کی خوشامد کرنے لگو، تو تمہیں بھی دنیاوی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے، کیونکہ نئے دور کا یہی قانون بن چکا ہے۔ آپ طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں عزت، ترقی اور اقتدار کا حصول میرٹ یا صلاحیت سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی خوشامد کے ذریعے ممکن ہو گیا ہے۔ یعنی اب وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو سچ بولنے کے بجائے اقتدار والوں کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں۔ اقبالؒ اس نئے نظام پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں، جہاں محنت، سچائی اور دیانتداری کی جگہ خوشامد اور منافقت نے لے لی ہے۔

معلوم نہیں، ہے یہ خوشامد کہ حقیقت
کہہ دے کوئی اُلّو کو اگر ’رات کا شہباز‘!

خوشامد: چاپلوسی، کسی کو خوش کرنے کے لیے غیر ضروری تعریف کرنا۔اُلّو: ایک پرندہ جو رات کو باہر نکلتا ہے ،نادان، بے وقوف۔ رات کا شہباز : رات میں اُڑنے والا عقاب

اقبالؒ یہاں خوشامدی رویے پر سخت طنز کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ آج کے دور میں یہ معلوم کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ جو الفاظ ادا کیے جا رہے ہیں، وہ حقیقت پر مبنی ہیں یا محض چاپلوسی کی ایک شکل ہیں۔ یعنی لوگوں نے سچ اور خوشامد میں تمیز ختم کر دی ہے، اور وہ طاقتور افراد کی بے جا تعریف میں اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ حقیقت مسخ ہو گئی ہے۔
پھر اقبالؒ ایک شاندار اور گہری مثال دیتے ہیں کہ اگر کوئی اُلّو کو "رات کا شہباز" کہے، تو کیا وہ واقعی عقاب بن جائے گا؟ یعنی کیا محض خوشامدی الفاظ سے کسی نالائق اور نااہل شخص کو عظیم اور قابل بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے؟ حقیقت میں ایسا ممکن نہیں، کیونکہ خوشامد حقیقت کو نہیں بدل سکتی۔ اقبالؒ اس شعر میں واضح کرتے ہیں کہ نادان، نالائق اور نااہل افراد کو محض تعریفوں کے ذریعے باصلاحیت ثابت نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ان کی اصلی

Category

📚
Learning

Recommended