محبت اور بغاوت سے گندھا ہوا فراز کا قلم

  • 9 years ago
25 اگست جذبوں کے شاعر احمد فراز کا یوم وفات ہے ۔ کچھ لوگ انہیں رومانوی شاعر کہتے ہیں جو نوجوان احساسات کے لیے محبت کا اظہار تخلیق کرتا تھا ۔ کچھ فراز کو باغی کہتے ہیں ۔

میں سمجھتا ہوں کہ فراز ہمارے عہد کی نوجوانی اور جوانی کا استاد ہے ۔ اس کے کلام میں میری رومانویت اور بغاوت دونوں کی تسکین کا سامان موجود ہے ۔

احمد فراز کو بغاوت سے محبت تھی اور وہ ہر اس سوچ کے خلاف بغاوت کا علم لیکر نکل کھڑا ہوتا جس میں انسان کی آزادیوں کو جبر کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی تھی ۔

احمد فراز کا یہ رنگ سب سے زیادہ ان کی نظم محاصرہ میں دکھائی دیتا ہے ۔ محاصرہ فراز فہمی کے لیے ایک بنیاد ہے ۔

احمد فراز نے اپنی چھ سالہ جلا وطنی کے دوران محاصرہ لکھی ،انہوں نے محاصرہ کی آڈیو ریکارڈنگ کی سی ڈی عدلیہ بحالی تحریک کے دوران مجھے خود دی تھی جو میرے پاس ان کی ایک یاد گار ہے ۔

اس رپورٹ میں اسے استعمال بھی کیا گیا ہے ۔

میرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے

میرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے

میرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے

میرا قلم نہیں اس دزدِنیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے

میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے

میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے

میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے

اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے

میں کٹ گروں یا سلامت رہوں، یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا

تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا