Aik musalsal khayal Zia mohiuddin reciting nasir kazmi

  • 9 years ago
تُو جب میرے گھر آیا تھا
میں اِک سپنا دیکھ رھا تھا

تیرے گھر کے دروازے پر
سُورج ننگے پاؤں کھڑا تھا

کِتنی پیار بھری نرمی سے
تُونے دروازہ کھولا تھا

تیرے بالوں کی خوشبوسے
سارا آنگن مہک رھا تھا۔

اِک رُخسار پہ زلف گری تھی
اِک رُخسار پہ چاند کِھلا تھا

ٹھوڑی کے جگمگ شیشے میں
ہونٹوں کا سایا پڑتا تھا

تیری پلکیں بوجھل سی تھیں
میں بھی تھک کر چُور ھُوا تھا.

تیری ھلال سی اُنگلی پکڑے
میں کوسوں پیدل چلتا تھا.

یُوں گزری وہ رات سفر کی
جیسے خوشبو کا جھونکا تھا.

تیری خموشی کی شہ پا کر
میں کتنی باتیں کرتا تھا

چاند کی دھیمی دھیمی ضَو میں
سانولا مکھڑا لَو دیتا تھا

تیری نیند بھی اُڑی اُڑی تھی
میں بھی کچھ کچھ جاگ رھا تھا

میرے ھاتھ بھی سُلگ رھے تھے
تیرا ماتھا بھی جلتا تھا

کھڑکی کے دھندلے شیشوں پر
دو چہروں کا عکس جما تھا۔

تیرے شانوں پہ سر رکھ کر
میں سپنوں میں ڈوب گیا تھا

دھوپ کے لال ھرے ھونٹوں نے
تیرے بالوں کو چوما تھا

تیرے عکس کی حیرانی سے
بہتا چشمہ ٹہر گیا تھا۔

یوں گزری وہ رات بھی جیسے
سپنے میں سپنا دیکھا تھا۔

دو رُوحوں کا پیاسا بادل
گرج گرج کر برس رھا تھا

دیکھ کے تیرے دیس کی رچنا
میں نے سفر موقوف کیا تھا

ماتھے پر بوندوں کے موتی
آنکھوں میں کاجل ھنستا تھا۔

جب تک تجھ کو نیند نہ آتی
میں تیرے پاس کھڑا رھتا تھا۔

آنکھ کھلی تو تجھے نہ پا کر
میں کتنا بے چین ھوا تھا۔

تجھ بن گھر کتنا سُونا تھا
دیواروں سے ڈرلگتا تھا.

تجھ کو جانے کی جلدی تھی
اور میں تجھ کو روک رھا تھا۔

تیرے دھیان کی کشتی لے کر
میں نے دریا پار کیا تھا۔

دو یادوں کا چڑھتا دریا
ایک ھی ساگر میں گرتا تھا

دل کی کہانی کہتے کہتے
رات کا آنچل بھیگ چلا تھا

پل پل کانٹا سا چبھتا تھا
یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا۔

کسی پرانے وھم نے شاید
تجھ کو پھر بے چین کیا تھا۔

سوکھ گئی جب سکھ کی ڈالی
تنہائی کا پھول کھلا تھا۔

تنہائی محراب عبادت
تنہائی ممبر کا دیا تھا۔

وہ جنت میرے دل میں چھپی تھی
میں جسے باھر ڈھونڈ رھا تھا۔

تنہائی میرے دل کی جنت
میں تنہا ھوں ، میں تنہا تھا۔

رات گئے سویا تھا لیکن
تُجھ سے پہلے جاگ اُٹھا تھا

گئے دنوں کی خوشبو پا کر
میں دوبارہ جی اٹھا تھا۔

صبح ھُوئی تو سب سے پہلے
میں نے تیرا مُنہ دیکھا تھا

کیسے کہوں روداد سفر کی ؟
آگے موڑ جدائی کا تھا۔

بُھولی نہیں وہ شامِ جُدائی
میں اُس روز بہت رویا تھا

یاد آئیں کچھ ایسی باتیں
میں جنہیں کب کا بُھول چکا تھا

دل کو یونہی اک رنج ھے ورنہ
میرا تیرا ساتھ ھی کیا تھا۔

تُجھ بِن ساری عُمر گزاری
لوگ کہیں گے تُو میرا تھا.

تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا
پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا

تیرے ھاتھ کی چائے تو پی تھی
دل کا رنج تو ، دل میں رھا تھا

کس کس بات کو روؤں ناصر
اپنا لہنا ھی اتنا تھا۔

”ناصر کاظمی“

Recommended